1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بچے، منشیات ڈیلروں کے بچیں تو اسمگلروں موجود

16 اگست 2018

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال یونیسیف کے مطابق وسطی امریکی ممالک سے تعلق رکھنے والے بچے جو منشیات فروشوں اور جرائم پیشہ گروہوں کے تشدد سے بچ نکلتے ہیں، وہ انسانوں کے اسمگلروں کا نشانہ بن رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/33FYz
Italien Flüchtlinge Ventimiglia
تصویر: Getty Images/AFP/J.C. Magnenet

جمعرات کے روز یونیسیف کی جانب سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ ہزاروں بچے ایسے ہیں، جو یا تو تنہا یا پھر اپنے اہل خانہ کے ساتھ السلواڈور، ہونڈوراس اور گوئٹے مالا سے امریکا کی جانب سفر کر رہے ہیں اور انہیں میکسیکو سے گزرنا پڑتا ہے۔

’ٹرمپ نے بہت دیر سے فیصلہ کیا، جو نقصان ہونا تھا ہو گیا‘

وہ تیرگی جو میرے مسیحا کی دین ہے

رپورٹ کے مطابق ہر برس ایسے ہزاروں بچوں کو ایک طرف منشیات فروشوں اور جرائم پیشہ افراد کا سامنا ہوتا ہے تو بہت سے بچے انسانوں کے اسمگلروں کے شکنجے میں پھنس جاتے ہیں۔

اس رپورٹ میں کہا گیا ہے، ’’خاندانوں کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ یہ ایک طویل سفر ہے، جس میں ان معصوم بچوں کے انسانوں کے اسمگلروں یا دیگر جرائم پیشہ عناصر کے ہتھے چڑھ جانے کے خطرات موجود ہیں۔‘‘

یونیسیف کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ بہت سے تارکین وطن، جنہیں مختلف ممالک کی جانب سے ملک بدر کیا گیا، وہ اپنے پیچھے چھوڑے گئے قرضوں یا جرائم پیشہ عناصر کے دائرے میں پھنس گئے۔

یونیسیف کی اس رپورٹ کے مطابق امریکا سے قریب چوبیس ہزار دو سو خواتین اور بچوں کو جنوری اور جون کے درمیانی عرصے میں ملک بدر کیا گیا اور ایسی ملک بدریوں میں میکسیکو سرفہرست تھا۔

یونیسیف کے علاقائی ڈائریکٹر خوزے بیرگوآ کے مطابق، ’’مختلف ممالک کی سرحدوں پر سخت ترین چیکنگ کی وجہ سے تارکین وطن اور مہاجرین بہ شمول بچے بہت خطرناک راستوں کا انتخاب کر رہے ہیں۔‘‘

انہوں نے تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن سے بات چیت میں کہا، ’’حراست سے بچنے کے لیے یہ بچے چھپ کر سفر کرتے ہیں، جہاں کوئی نہیں جانتا کہ یہ کہاں ہیں، ایسے میں جرائم پیشہ عناصر اس صورت حال کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔‘‘

یونیسیف کے مطابق وسطی امریکا میں ایسے بچوں کی حتمی تعداد معلوم نہیں، جو جنسی استحصال یا جبری مشقت کا نشانہ بن چکے ہیں۔ واضح رہے کہ وسطی امریکا اور بحیرہ کیریبیین کے خطے میں بچوں کی اسمگلنگ ایک نہایت منافع بخش کاروبار میں تبدیل ہو چکی ہے، جہاں انسانوں کی ٹریفکنگ کے متاثرہ ہر پانچ افراد میں سے تین بچے ہوتے ہیں۔

ع ت، م م (روئٹرز، اے ایف پی)