1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بچے کی اصل ولدیت جاننے کا جرمن منصوبہ

عابد حسین30 اگست 2016

جرمن حکومت بچے کی اصل ولدیت معلوم کرنے کے لیے قانون سازی کرنا چاہتی ہے۔ اس قانون کی ضرورت اس لیے محسوس کی جا رہی ہے تا کہ اصل والد پر بچے کی کفالت کی مالی ذمہ داری عائد کی جا سکے۔

https://p.dw.com/p/1Js9J
تصویر: imago/imagebroker

مختلف سماجی اعداد و شمار کے مطابق جرمنی میں چار سے دس فیصد بچے ایسے ہیں جن کا حقیقی والد کوئی اور ہوتا ہے اور انہیں پالتا کوئی اور ہے۔ ماہرینِ سماجیات کا خیال ہے کہ ایسے بچوں کی مائیں ہی اُن کے اصل والد کے بارے میں یقینی طور پر آگہی رکھتی ہیں۔ ایسے بچے جو دوسرے والد کے ساتھ پروان چڑھتے ہیں، انہیں انگریزی میں ’مِلک مینز کِڈز‘ کہا جاتا ہے۔ جرمن معاشرے میں ان بچوں کو ’ککو یا کوئل کے بچے‘ قرار دیا جاتا ہے۔ کوئل کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ چڑیا کے گھونسلے میں انڈے دیتی ہے۔ اگر جرمن حکومت اِس نئے قانون کے نفاذ میں کامیاب ہو جاتی ہے تو پھر ایسے بچوں کی ماؤں کو قانون کی ضرورت کے تحت ظاہر کرنا ہو گا کہ جب حمل ٹھہرا تھا تو وہ کس مرد کے ساتھ رہ رہی تھیں۔

اس قانون کے حوالے سے جرمن وزیر انصاف ہائیکو ماس نے وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ اِس قانون کی ضرورت اِس لیے محسوس کی جا رہی ہے تا کہ بچے کی ولدیت کے بعد اصل والد پر مالی ذمہ داری کا تعین کیا جا سکے۔ ماس کے مطابق بچے کے بائیولوجیکل باپ کی شناخت سے درست ولدیت سامنے آ سکے گی۔ وزیر انصاف نے مزید کہا کہ باپ کے حتمی تعین کے بعد اصل والد بچے کی کم از کم دو برس تک کفالت کا ذمہ دار ہو گا۔

Symbolbild Lernen Schülerin Hausaufgaben Bildung
ماہرین کے مطابق اس عمل سے کئی بچوں میں نفسیاتی کمزوریوں کے ساتھ ساتھ عدم تحفظ پیدا ہو گاتصویر: picture-alliance/blickwinkel

اس قانون کے حوالے سے یہ پہلو بھی زیر غور ہے کہ کسی بھی ماں کو مجبور نہیں کیا جائے گا کہ وہ بچے کی ولدیت کا انکشاف کھلے عام کرے تاہم اِس کا تعین عدالت کرے گی کہ کوئی ماں اپنے بچے کے مستقبل کے لیے اصل والد کا نام مخفی رکھ سکتی ہے۔ کئی ماہرینِ قانون کا خیال ہے کہ عدالت بھی حقیقی ولدیت کی شناخت کے تناظر میں حکومتی قانون سازی کو غیر ضروری قرار دے سکتی ہے۔

جرمن وزیرانصاف ہائیکو ماس نے یہ بھی وضاحت دی ہے کہ اِس قانون سے اصل والد کو قانونی تحفظ بھی فراہم کیا جائے گا۔ کئی ماہرین سماجیات نے اِس تجویز کو معاشرتی توڑ پھوڑ کی جانب ایک اور قدم قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق اس عمل سے کئی بچوں میں نفسیاتی کمزوریوں کے ساتھ ساتھ عدم تحفظ پیدا ہونے کا قوی امکان ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی خیال کیا گیا ہے کہ اصل والد کی شناخت سے کئی ازدواجی تعلقات ٹوٹنے کے علاوہ ایک ساتھ رہنے والے مرد اور عورت میں بے چینی اور عدم اعتماد بھی بڑھے گا۔ اِس عدم اعتماد کا نتیجہ طلاق کی شرح میں اضافے کی صورت میں نکل سکتا ہے۔

جرمن پارلیمنٹ میں یہ منصوبہ بدھ 31 اگست کو باقاعدہ قانون سازی کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔ چانسلر میرکل کی خاندانی منصوبہ بندی کی وزیر مانویلا شوائسگ بھی اِس بل کے پیش کرنے میں شریک رہی ہیں۔ اراکین پارلیمنٹ نے اِس مشکل معاملے پر اُن کی کاوشوں کو سراہا ہے۔ شوائسگ کا کہنا ہے کہ اِس قانون کی پیچیدگیوں اور کمزوریوں کو کم کرنے کی کوشش کی جائے گی۔