1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بکھرتی ’خلافت‘ کے صحراؤں کی خاک چھانتے جہادی

عاطف توقیر
29 اکتوبر 2017

شدت پسند تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے جہادی شام کے شہری علاقوں میں شکست کھا کر پسپا ہو رہے ہیں اور اب کا رخ دور افتادہ صحرائی علاقے ہیں، جہاں یہ دوبارہ منظم ہونے کی کوشش میں ہیں۔

https://p.dw.com/p/2mhQe
Syrien verschwendetes Erdöl in Qamischli
تصویر: picture-alliance/AA/A. Demir

اس دہشت گرد گروہ نے سن 2014 میں شام اور عراق کے ایک وسیع علاقے پر قبضہ کرتے ہوئے نام نہاد ’خلافت‘ کا اعلان کر دیا تھا۔ اس تنظیم کے زیرقبضہ اس طویل علاقے میں ایک طرف شام میں اس کا مضبوط ترین گڑھ الرقہ تھا اور دوسری جانب عراق کا دوسرا سب سے بڑا شہر موصل۔ اب یہ تنظیم ان دونوں مضبوط ٹھکانوں کے ساتھ ساتھ قریب تمام اہم شہری علاقے کھو چکی ہے۔ تاہم ماہرین کا خیال ہے کہ اب بھی اس تنظیم کا مکمل خاتمہ نہیں ہوا ہے اور یہ اپنی کارروائیاں جاری رکھ سکتی ہے۔

داعش کے ’دارالخلافہ‘ پر امریکی حمایت یافتہ لشکریوں کی چڑھائی

داعش ایک سال میں اپنے زیر قبضہ ایک چوتھائی علاقے سے محروم

پیشمرگہ فورسز کی داعش کے خلاف تازہ فوجی کارروائی

اس خطے میں موجود ایک غیرآباد اور وسیع صحرا اب اس تنظیم کے جہادیوں کا مسکن بنتا جا رہا ہے۔ جنوب مشرقی شام، شمال مشرقی اردن، شمالی سعودی عرب اور مغربی عراق کے خطوں میں پھیلا یہ بدیعات الشام نامی پانچ لاکھ مربع کلومیٹر کا صحرائی اور پہاڑی علاقہ، جہاں غاریں اور گھاٹیاں بہ کثرت موجود ہیں، ان جہادیوں کو اپنی بقا کا واحد مقام معلوم ہوتی ہیں۔

ابوبکر البغدادی کی جانب سے موصل میں نہام نہاد ’خلافت‘ کے اعلان سے قبل بھی عسکریت پسند اس علاقے کو پناہ گاہ کے طور پر استعمال کرتے رہے ہیں۔ ماہرین کے مطابق اس صحرائی اور پہاڑی علاقے میں چھپے جہادیوں کو یہاں شکست دینے کے لیے لاکھوں فوجیوں کی ضرورے پڑ سکتی ہے اور علاقے پر مسلسل اور مستقل قبضے کے لیے مزید لاکھوں سکیورٹی اہلکار درکار ہوں گے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ داعش کے جنگجوؤں کے اس علاقے میں پھیل جانے کے بعد اگر درجنوں ممالک کے ہزارہا فوجی دستے یہاں نہ بھیجے گئے، تو یہ جہادی اس علاقے سے گوریلا جنگ شروع کر سکتے ہیں، جو خطے بھر میں خودکش حملوں اور دیگر طرز کے دہشت گردانہ واقعات کا موجب بنیں گے۔

شام کا مشرقی شہر دیرالزور بدیعات الشام ہی کے خطے میں واقع ہے اور اس وقت شدت پسند اسی علاقے میں جمع ہو رہے ہیں۔ یورپ میں مقیم دیرالزور صوبے سے تعلق رکھنی والے انسانی حقوق کے ایک کارکن عمر ابولیلیٰ کے مطابق، ’’وہ دشت میں لڑائی سے خاص شغف رکھتے ہیں اور اب وہ اسی پرانے طریقے کی جانب لوٹ جائیں گے۔‘‘

کیا پاکستان کو داعش سے خطرہ ہے؟

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے ماہرین کے حوالے سے کہا ہے کہ داعش کے رہنماؤں نے یہ سوچ رکھا ہے کہ وہ القاعدہ کی طرح صحرائی علاقوں میں چھپ جائے اور یہاں سے دہشت گردانہ حملے جاری رکھیں، جو طویل عرصے تک کیے جاتے رہیں۔