1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارتی حکومت کی بین الاقوامی سپر مارکیٹ چینز کو سرمایہ کاری کی دعوت

29 نومبر 2011

عالمی سطح پر ’’سپر مارکیٹ چینز‘‘ کے بڑھتے ہوئے رحجان کی وجہ سے اس شعبے میں سرمایہ کاری کرنے والے بڑے عالمی اداروں کو بھارت میں بھی سرمایہ کاری کے مواقع کا شدت سے انتظار تھا۔

https://p.dw.com/p/13Itu
تصویر: AP

حکومت کی جانب سےگزشتہ ہفتے ’’ریٹیل‘‘ کے شعبے میں اصلاحات کے اعلان کے بعد بین الاقوامی سپر مارکیٹ چینز کی بھارت میں آمد کی راہ کافی حد تک ہموار ہو گئی ہے۔ تاہم بھارت میں اشیاء کی خریداری کے روایتی طریقے ان سپر مارکیٹ چینز کے کاروبار کو مشکل میں ڈال سکتے ہیں۔ روزمرہ اشیاء کی فروخت کے لیے ملک کے گلی محلوں میں جگہ جگہ چھوٹی دوکانیں اور اسٹالز نظر آتے ہیں، جہاں باقاعدگی سے خریداری کرنے والے صارفین کو یہ اشیاء بلا معاوضہ ان کے گھروں پر بھی فراہم کی جاتی ہیں۔

Indien Markt Gemüse
بھارت کے گلی محلوں میں جگہ جگہ چھوٹی دوکانیں اور اسٹالز نظر آتے ہیںتصویر: AP

45 سالہ شیلا شرما دارالحکومت نئی دہلی میں رہتی ہیں۔ انہوں نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ وہ اپنے گھر پر اشیائے صرف کی فراہمی کے لیے روزانہ ٹیلی فون کر دیتی ہیں۔ شیلا کے مطابق یہ طریقہ آسان اور مؤثر ہے اور وہ اسے تبدیل کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی ہیں۔ شیلا کا یہ بھی کہنا تھا کہ انہیں جب کسی مخصوص شے کی طلب ہو تو وہ کسی سپر مارکیٹ کا رخ بھی کرتی ہیں تاہم دیگر روزمرہ اشیاء کی خریداری کے لیے روایتی طریقہ زیادہ کامیاب اور آزمودہ ہے۔ حکومت کی جانب سے ریٹیل کے شعبے میں اصلاحات کو سپر مارکیٹ چینز کے بڑے عالمی اداروں ’’وال مارٹ‘‘ اور ’’کیری فور‘‘ کی جانب سے بھی سراہا گیا ہے۔

دوسری جانب اسی شعبے میں نمایاں شہرت کے حامل مقامی ادارے ’’ریلائنس‘‘ نے اپنے تجربات کی روشنی میں دیگر بین الاقوامی سپر مارکیٹ چینز کی بھارت میں آمد اور فوری طور پر نمایاں کامیابی حاصل کرنے کو خارج از امکان قرار دیا ہے۔ چار سال قبل ’’ریلائنس‘‘ کے سربراہ اور معروف صنعتکار مکیش امبانی نےبھارت میں سپر مارکیٹ اسٹورز کا سلسلہ شروع کیا۔ ان کے مقاصد میں 2011ء تک سالانہ 25 بلین ڈالرز آمدنی اور ملک بھر میں چار ہزار مزید شاخوں کا آغاز تھا لیکن مبصرین کے مطابق رواں سال تک سالانہ آمدنی صرف ایک بلین ڈالرز اور شاخوں کی تعداد صرف 1000 ہے۔

Flash Galerie Mukesh Amabani
’’ریلائنس‘‘ کے سربراہ اور معروف صنعتکار مکیش امبانیتصویر: Worl Economic Forum

مقامی طور پر ایک چھوٹی دکان اور صارف کے گھر کے درمیان فاصلہ بھی کم ہوتا ہے اور اس لیے ایک سائیکل کی مدد سے یا پھر پیدل چل کر ہی اشیاء کی فراہمی کو یقینی بنا دیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اکثر مالکان باقاعدگی سے خریداری کرنے والے افراد کو ادھار بھی اشیاء دے دیتے ہیں۔ اسی لیے شرما اور اس جیسے دیگر صارفین بھی اپنی مقامی مارکیٹ کی سروس کو کسی بھی بڑے سپر مارکیٹ اسٹور سے بہتر تصور کرتے ہیں۔

حکومت کی جانب سے بین الاقوامی سپر مارکیٹ چینز کو بھارت میں سرمایہ کاری کی اجازت دینے کے فیصلے کو حزب اختلاف کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ ایک اپوزیشن رہنما کی جانب سے تو بھارت میں کھلنے والے ’’وال مارٹ‘‘ کے ہر اسٹور کو آگ لگا دینے کے عزائم کا بھی اظہار کیا گیا ہے۔ حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی رہنما اوما بھارتی کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ اس حکومتی فیصلے نے غریب لوگوں کے روزگار کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ لیبر تنظیموں، سیاستدانوں اور تاجروں نے بھی ان حکومتی اصلاحات پر کڑی تنقید کی ہے اور اسے چھوٹے پیمانے پر کاروبار کرنے والے افراد کے لیے خطرناک قرار دیا ہے۔

رپورٹ: شاہد افراز خان

ادارت: امجد علی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں