1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارتی پارلیمان کے اجلاس سے صدر پاٹل کا خطاب

افتخار گیلانی، نئی دہلی12 فروری 2009

بھارت میں انتخابات سے قبل پارلیمان کے اس آخری اجلاس میں عبوری بجٹ پیش کیا جائے گا اور ممبئی حملوں کے سلسلے میں پاکستان کے رویے اور اس کے جواب کے علاوہ متعدد دیگر امور پر بھی گرماگرم بحث ہونےکی امید ہے۔

https://p.dw.com/p/Gsxp
بھارتی صدر پرتبھا دیوی سنگھ پاٹلتصویر: picture-alliance/ dpa

صدر پرتبھا دیوی سنگھ پاٹل نے روایتی طور پر پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کیا۔ ان کی تقریر پوری طرح انتخابی تقریر معلوم ہورہی تھی کیوں کہ اس کا بیشتر حصہ حکومت کے کارناموں کے ذکر پر مشتمل تھاچونکہ بھارت میں عام انتخابات بالکل قریب ہیں اس لئے اس تقریر میں خاص طور پر مسلمانوں کو یہ بتانے کی کوشش کی گئی کہ حکومت نے پچھلے تین برسوں کے دوران ان کی فلاح وبہبود کے لئے کتنے اقدامات کئے ہیں اور کن فلاحی اسکیموں پر کام جاری ہے۔ صدر نے اپنی تقریرمیں یہ بھی بتایا کہ پچھلے کئی سالوں میں سرکاری ملازمتوں، بینکوں، نیم فوجی دستوں، ریلوے اور مالیاتی اداروں میں مسلمانوں کی نمائندگی میں اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سچر کمیٹی کی رپورٹ کے بعد، جس میں مسلمانوں کی اقتصادی، تعلیمی اور سماجی صورت حال کا جائزہ لیا گیا ہے، حکومت نے آٹھ لاکھ مسلم طلبہ کو وظیفے دیئے اور سرکاری بینکوں کی تقریبا 500شاخیں مسلم علاقوں میں کھولی گئیں۔

سیاسی تجزیہ نگار ارملیش نے کہا کہ چونکہ یہ پارلیمان کا آخری اجلاس ہے اس لئے اس میں انتخابی رنگ چھایا رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت جہاں اپنے کارناموں کا ذکر کرے گی وہیں اپوزیشن یہ ثابت کرنے کی کوشش کرے گی کہ حکومت نے زمینی سطح پر فلاح و بہبود کا کوئی کام نہیں کیا۔ ارملیش نے کہا کہ اس اجلاس کے دوران کسی اہم مسئلے پر سنجیدہ بحث کی امید نہیں ہے۔

صدر پرتبھا دیوی سنگھ پاٹل نے اپنی تقریر میں پاکستان کی سرزمین سے بھارت کے خلاف مبینہ طور پر جاری دہشت گردی کی بھی شدید نکتہ چینی کی۔ انہوں نے کہا کہ ممبئی حملوں کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات اور باہمی مذاکرات کو کافی نقصان پہنچا ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف فیصلہ کن اور بھروسے مند اقدامات کرنے چاہئیں۔

صدر پاٹل جس وقت پارلیمان میں یہ تقریرکررہی تھیں ٹھیک اسی وقت اسلام آباد میں پاکستانی وزیر اعظم کے مشیر برائے داخلہ رحمان ملک ممبئی حملوں کے سلسلے میں پاکستان کی طرف سے اٹھائے گئے اقدامات کی تفصیلات بتارہے تھے۔سیاسی تجزیہ نگار ارملیش نے اسے ایک دلچسپ اتفاق قرار دیتے ہوئے کہا اس بات کا اندازہ یہاں میڈیا کو بھی نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ حالانکہ پاکستان نے بعض اقدامات کا اعلان کیا ہے لیکن بھارت نے جن امور پر تشویش کا اظہار کیا ہے انہیں ابھی دور کیا جانا باقی ہے۔

دریں اثنا بھارتی وزارت خارجہ نے اپنے ایک بیان میں پاکستان کے اقدامات کو مثبت قرار دیا او ر امید ظاہر کی کہ پاکستان اپنے ملک میں دہشت گردی کے ڈھانچے کو تباہ کرنے کے لئے بھروسہ مند قدم اٹھائے گا۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ اسلام آباد نے بہر حال یہ تسلیم کیا ہے کہ دہشت گردانہ حملوں میں پاکستانی عناصر شامل تھے۔ بیان میں مزیدکہا گیا ہے کہ پاکستان ابھی اس معاملے کی تفتیش کررہا ہے اس نے کچھ تفصیلات طلب کی ہیں، اس پر غور کیا جارہا ہے اور جو اطلاعات دینی ہوں گی وہ اسلام آباد کو دی جائیں گی۔

اس دوران حکمراں کانگریس پارٹی نے کہا کہ بھارت میں ہوئے کسی دہشت گردانہ حملے کے خلاف پہلی مرتبہ پاکستان نے کوئی قدم اٹھایا ہے ۔یہ ایک بڑی کامیابی ہے اور یہ دراصل کانگریس کی قیادت والی متحدہ ترقی پسند اتحادکی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ کانگریس کے ترجمان منیش تیواری نے تاہم کہا کہ بھارت اور پاکستان میں جن فوجداری قوانین پر عمل ہوتا ہے ان کی روسے کسی جرم کے لئے دو جگہ پر مقدمات نہیں چلائے جاسکتے۔ اس لئے پاکستان کو چاہئے کہ اس نے ممبئی حملوں میں واحد زندہ گرفتار انتہاپسند اجمل عامر قصاب کے علاوہ جن تیرہ لوگوں کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی ہیں انہیں بھارت کے حوالے کرے تاکہ ان پر یہاں مقدمہ چلایا جاسکے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان ممبئی حملوں کے قصورواروں کے خلاف اپنی کارروائی جاری رکھے۔ منیش تیواری نے اس بات کی تردید کی کہ بھارتی سرکار کسی اسٹریٹیجک پارالیسس کا شکار ہے۔ انہوں نے ممبئی حملوں کے جواب میں پاکستان کے خلاف جنگ کی باتیں کرنے والے عناصر کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ دراصل پاکستان بھی یہی چاہتا تھا لیکن بھارت اس کے شکنجے میں نہیں پھنسا اور حکومت کی پالیسی کارگرثابت ہوئی۔