1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارتی یونیورسٹیوں میں 25 برسوں کے بڑے ترین مظاہرے

افسر اعوان15 فروری 2016

ایک طالب علم پر بغاوت کا الزام عائد کیے جانے کے ردعمل میں بھارت بھر کی یونیورسٹیوں میں مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ اسے طلبہ کی نریندر مودی کی حکومت کے ساتھ آزادی اظہار کے معاملے پر ایک جنگ قرار دیا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/1Hvp3
تصویر: Getty Images/AFP/S. Hussain

بائیں بازو کے ایک طالب علم رہنما کو کشمیری علیحدگی پسند رہنما کو پھانسی دیے جانے کی برسی کے موقع پر ایک ریلی منعقد کرنے پر گرفتار کر لیا گیا تھا۔ اس طالب علم کی گرفتاری پر طلبہ کی طرف سے احتجاج کیا گیا تھا جو اب پھیل کر ملک کی کم از کم 18 یونیورسٹیوں میں پھیل گیا ہے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق سب سے بڑا مظاہرہ نئی دہلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی JNU میں ہوا جہاں ہزاروں طلبہ نے کلاسوں کا بائیکاٹ کیا اور رکاوٹیں کھڑی کیں۔ آج ان مظاہروں کا چوتھا دن تھا۔ آل انڈیا اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے دہلی یونٹ کی نائب صدر راحیلہ پروین کے مطابق، ’’حکومت نہیں چاہتی کہ طلبہ کی کوئی رائے ہو۔‘‘ بائیں بازو کی اس طلبہ تنظیم کی نائب صدر کا مزید کہنا تھا، ’’حکومت چاہتی ہے کہ طلبہ صرف وہی سوچیں، سمجھیں یا کہیں جو وہ کہے۔‘‘

روئٹرز کے مطابق یہ مظاہرے دراصل مودی کی قوم پرست حکومت اور بائیں بازو کے لبرل گروپوں کے درمیان ایک نظریاتی جنگ ہے۔ ناقدین مودی حکومت کی کارروائیوں کو 1970ء کی دہائی میں اُس وقت کی وزیراعظم اندرا گاندھی کی طرف سے مخالفین کو کچلنے کے لیے لگائی جانے والی ایمرجنسی سے تشبیہ دے رہے ہیں۔

مودی کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی BJP کے ارکان طالب علم رہنما کنہیا کمار پر بھارت مخالف جذبات ابھارنے کا الزام عائد کر رہے ہیں۔ بی جے پی کے ایک رکن پارلیمان کا کہنا ہے کہ بائیں بازو کی سیاست کی روایت رکھنے والی اس یونیورسٹی کو بند ہی کر دیا جائے۔

بھارتیہ جنتا پارٹی کے ارکان طالب علم رہنما کنہیا کمار پر بھارت مخالف جذبات ابھارنے کا الزام عائد کر رہے ہیں
بھارتیہ جنتا پارٹی کے ارکان طالب علم رہنما کنہیا کمار پر بھارت مخالف جذبات ابھارنے کا الزام عائد کر رہے ہیںتصویر: Getty Images/AFP/S. Hussain

نریندر مودی کے ایک قریبی ساتھی اور بی جے پی کے صدر امیت شاہ کا پارٹی ہیڈکوارٹرز میں کہنا تھا، ’’میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ہم جو بھی اقدام کریں گے وہ اپنے ملک کی حفاظت کے لیے ہو گا۔ بھارت مخالف کوئی بھی کارروائی برداشت نہیں کی جائے گی۔‘‘

کنہیا کمار کو گزشتہ ہفتے بغاوت کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ کمار ایک ریلی کے دوران 2013ء میں کشمیری رہنما افضل گرو کو پھانسی دیے جانے کے عمل پر سوال اٹھایا تھا۔ گرو کو نئی دہلی میں ملکی پارلیمان پر 2001ء میں کیے جانے والے حملے میں ان کے کردار کے الزام میں یہ پھانسی دی گئی تھی۔

انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والوں کی طرف سے افضل گُرو کی پھانسی کے بارے میں سوالات اٹھائے جاتے رہے ہیں۔ جبکہ بھارتی سپریم کورٹ نے بھی گرو کے خلاف شواہد کو سطحی قرار دیا تھا۔ آج پیر کے روز بغاوت کے الزام میں گرفتار کیے جانے والے طالب علم رہنما کنہیا کمار کو نئی دہلی کی ایک عدالت میں پیش کیا گیا۔ اس موقع پر طلبہ اور وکلاء کے درمیان بھی جھڑپیں ہوئیں۔