1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت: ایڈز کے مریضوں سے امتیازی سلوک، اب جُرم

جاوید اختر، نئی دہلی
12 ستمبر 2018

بھارت میں طویل انتظار کے بعد حکومت نے ایڈز کے مریضوں کے خلاف امتیازی سلوک کو قابل سزا جرم قرار دے دیا ہے۔ اس قانون کے نفاذ سے متاثرین کی زندگی کچھ آسان ہوجانے کی امید کی جارہی ہے۔

https://p.dw.com/p/34l9K
Bildergalerie Geschichte von HIV/AIDS
تصویر: AP

ایچ آئی وی/ ایڈز ایکٹ 2017ء کے نام سے اس قانون کے نافذ ہوجانے کے بعد اس مرض میں مبتلا افراد کے ساتھ امتیازی سلوک کرنے والوں کو زیادہ سے زیادہ دو برس تک قید یا ایک لاکھ روپے جرمانہ یا دونوں ہی سزائیں دی جا سکتی ہیں۔ اس قانون کے نافذ ہوجانے کے بعد بھارت میں 21 لاکھ سے زائد ایچ آئی وی/ ایڈز  سے متاثرہ مریضوں کی زندگی ممکنہ طور پر نسبتاﹰ آسان ہوجائے گی۔
پارلیمان میں یہ بل سابق ڈاکٹر من موہن سنگھ حکومت میں وزیر صحت غلام نبی آزاد نے 2014 میں پیش کیا تھا اور گزشتہ برس اپریل میں پارلیمان نے اس کی منظوری دے دی تھی۔ اس کے بعد صدر جمہوریہ نے اس کی توثیق بھی کردی تھی تاہم مودی حکومت اس قانون کو نوٹیفائی کرنے میں تاخیر کر رہی تھی جس کے لیے پچھلے دنوں دہلی ہائی کورٹ نے اس کی سرزنش بھی کی۔
حکومت کی طرف سے جاری کردہ نوٹیفیکیشن میں کہا گیا ہے کہ اس قانون کا مقصد ایچ آئی وی یا ایڈز کے متاثرین کے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک کو ختم کرنا اوران کے حقوق کا تحفظ کرنا ہے۔
ایچ آئی وی کے مریضوں کے خلاف امتیازی سلوک کی تشریح کرتے ہوئے کہا گیا ہے، ’’مریضوں کو روزگار، تعلیم، صحت، جائیداد، کرایہ پر مکان جیسی سہولیات دینے سے انکار کرنا یا کسی طرح کی نا انصافی کرنا بھید بھاؤ ہوگا۔‘‘ اس کے ساتھ ہی کسی کو ملازمت، تعلیم، یا صحت سے متعلق خدمات فراہم کرنے سے پہلے ایچ آئی وی ٹیسٹ کروانا بھی بھید بھاؤ ہوگا۔ اس قانون میں یہ التزام بھی ہے کہ کسی متاثرہ شخص کی رضامندی کے بغیر اس کا علاج یا اس پر میڈیکل تحقیق نہیں کی جاسکتی۔ اس کے علاوہ ایچ آئی وی سے متاثر ہونے کی بنیاد پر کسی شخص کو ملازمت نہ دینے یا ملازمت سے نکالنے پر بھی سزا کا سامنا کرنا ہوگا۔ متاثرہ شخص کو جائیداد میں پورا حق اور صحت سے متعلق تمام ممکنہ امداد حاصل کرنے کا حق حاصل ہوگا۔ اسے اپنے خاندان کے ساتھ رہنے کا بھی حق حاصل ہوگا۔
اس قانون میں اداروں پر ذمہ داری ڈالی گئی ہے کہ وہ متاثرین کے حقوق کی حفاظت کریں اور ان کی شکایتوں کے ازالے کے لیے مؤثر میکنزم تیار کریں۔ انشورنس کمپنیاں بھی اب ایچ آئی وی/ ایڈز سے متاثرہ افراد کو میڈیکل انشورنس دینے سے انکار نہیں کرسکیں گی، تاہم اس کے لیے وہ کچھ زیادہ پریمیئم کا مطالبہ کرسکتی ہیں۔ اس قانون کے مطابق اٹھارہ برس سے کم عمر کے مریضوں کو اپنے رشتہ داروں کے ساتھ رہنے اور گھر کے دیگر افراد کی طرح ہی تمام سہولیات استعمال کرنے کا حق حاصل ہوگا۔
اس قانون کو اس لیے اہم قرار دیا جارہا ہے کیوں کہ بھارت ایچ آئی وی سے متاثر دنیا کا تیسرا سب سے بڑا ملک ہے۔ نیشنل ایڈز کنٹرول آرگنائزیشن کی رپورٹ کے مطابق ایک ارب پچیس کروڑ کی آبادی والے ملک بھارت میں پندرہ اور 49 برس کے درمیان عمر کے 0.26 فیصد افراد ایچ آئی وی سے متاثر ہیں۔ ایک اندازہ کے مطابق ان کی تعداد تقریباً 21.17 لاکھ ہے۔ یو این ایڈز کی رپورٹ کے مطابق بھارت میں 2015 تک تقریباً بیس لاکھ افراد ایچ آئی وی سے متاثر تھے۔ صرف 2015 میں ہی68 ہزار سے زائد ایڈز کے مریضوں کی موت ہوگئی تھی جب کہ 86 ہزار نئے افراد میں ایچ آئی وی انفیکشن پائی گئی تھی۔
ایچ آئی وی یا ایڈز کے متاثرین کی فلاح و بہبود کے لیے سرگرم غیر سرکاری تنظیم سواستی ہیلتھ کیٹالسٹ کی انجیلا چودھری نے نئے قانون کے نفاذ کو مثبت قدم قرا ردیتے ہوئے کہا کہ ا س کا ایک عرصے سے انتظار تھا۔ تاہم ان کا کہنا تھا، ’’اس قانون سے صرف انہیں لوگوں کو فائدہ ہوگا جو ایچ آئی وی/ ایڈز سے متاثر ہیں یا امتیازی سلوک کا شکار ہوتے ہیں۔ اس قانون میں متاثرین کے بچوں یا ان کے لواحقین کے سلسلے میں کوئی بات نہیں کہی گئی ہے حالانکہ بھارتی سماج میں ان لوگوں کے ساتھ بھی امتیازی سلوک ہو رہا ہے۔ لوگ اپنے بچوں کا متاثرین کے بچوں کے ساتھ میل جول پسند نہیں کرتے جس کی وجہ سے متاثرین کے بچوں کو اسکولوں میں داخلہ لینے میں بھی کافی پریشانی پیش آتی ہے۔‘‘

Indien Generikahersteller Natco
یو این ایڈز کی رپورٹ کے مطابق بھارت میں 2015 تک تقریباً بیس لاکھ افراد ایچ آئی وی سے متاثر تھے۔ تصویر: picture-alliance/AP

انجیلا چودھری کا مزید کہنا تھا، ’’ایچ آئی وی / ایڈز متاثرین کے معاملے میں ایک ہمہ جہت رویہ اپنانے کی ضرورت ہے تاکہ متاثرین اور ان کے بچوں کے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک کو کامیابی کے ساتھ ختم کیا جاسکے۔‘‘
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ چونکہ ایچ آئی وی / ایڈز سے متاثر افراد کو سماج میں قبول کرنا اب بھی ایک بڑا چیلنج ہے اس لیے حکومت کو عوامی بیداری کا ایک جامع پروگرام بھی شروع کرنا چاہیے کیوں کہ صرف قانون بناکر کسی ایسے مسئلے کو ختم کرنا ممکن نہیں جس نے سماج میں نیچے تک اپنی جڑیں مضبوط کرلی ہیں۔

پاکستان میں ایڈز کا وائرس بہت تیزی سے پھیلتا ہوا