1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت: جسم فروشی کے اڈوں پر چھاپے، تيس خواتین بازیاب

6 مارچ 2017

بھارتی پولیس نے جسم فروشی کے اڈوں پر چھاپے مارتے ہوئے اسمگل شدہ تیس خواتین کو بازیاب کرا لیا ہے۔ جن خواتین سے جسم فروشی کا کام لیا جاتا تھا ان میں تیرہ سالہ لڑکیاں بھی شامل ہیں۔

https://p.dw.com/p/2YifA
Indien jügendliche Protituierte gerettet in Bombay
تصویر: imago/UIG

بھارت کی جنوبی ریاست تلنگانہ میں جسم فروشی کے مختلف اڈوں پر چھاپے مارتے ہوئے پوليس نے تقریباﹰ پینتیس افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔ میڈک ڈسٹرکٹ میں مارے گئے ان چھاپوں کے دوران تیس ایسی خواتین اور لڑکیوں کو بازیاب کیا گیا ہے، جنہیں جسم فروشی پر مجبور کیا گیا تھا۔ بتایا گیا ہے کہ ان میں تیرہ سالہ لڑکیاں بھی شامل ہیں۔

پولیس کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق جنسی اسمگلنگ کے نیٹ ورک کے خلاف کریک ڈاؤن میں یہ ایک ’بڑی پیش رفت‘ ہے۔ پولیس کی طرف سے یہ چھاپے یکم اور دو مارچ کے درمیان مارے گئے تھے۔

 تلنگانہ میں کریمِنل انویسٹی گیشن ڈیپارٹمنٹ کے افسر سومی مِشرا کا صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’ان اڈوں کے باہر بڑے بڑے کتّے تھے جبکہ وہاں پر موجود پہرے دار بھی مسلسل چوکنا رہتے تھے۔ وہاں  داخل ہونا مشکل کام تھا۔‘‘

اُن کا مزید کہنا تھا کہ ان اڈوں پر چھاپے مارنے کے لیے انہیں کئی ماہ  تیاری کرنی پڑی کیوں کہ ملزمان کے بہت سے نوجوان موٹر سائیکلوں پر ارد گرد کے علاقے میں گھومتے رہتے تھے تاکہ پولیس کی نقل و حرکت پر نظر رکھی جا سکے۔

بھارت میں کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیموں کے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں تقریباﹰ بیس ملین خواتین اور لڑکیاں جسم فروشی کے پیشے سے منسلک ہیں اور ان میں سے تقریباﹰ سولہ ملین جنسی اسمگلنگ کے نتیجے میں اس کاروبار سے جڑی ہوئی ہیں۔

مشرا کا تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ سن دو ہزار پندرہ سے سن دو ہزار سولہ کے درمیان جنوبی ریاست تلنگانہ میں جنسی اسمگلنگ کے پانچ سو سے زائد کیسز رجسٹر کروائے گئے تھے جبکہ پولیس کی کارروائیوں میں تقریباﹰ چھ سو اسمگلروں کو گرفتار کیا گیا۔

رپورٹوں کے مطابق جسم فروشی کے ایسے اڈوں پر زیادہ تر ان نوجوان لڑکیوں کو لایا جاتا ہے، جن کے مالی یا گھریلو حالات انتہائی خراب ہوتے ہیں۔ اسمگلر ان لڑکیوں کی مجبوری کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے انہیں مختلف حیلے بہانوں سے اپنے جال میں پھنسا لیتے ہیں۔ جن اڈوں پر چھاپے مارے گئے ہیں، وہاں ایک لڑکی کو روزانہ کم از کم دس گاہکوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔

پولیس کے مطابق ان چھاپوں کے دوران انہیں ایک ایسی لڑکی بھی ملی ہے، جو انتہائی بیمار تھی اور اگر اسے بروقت ڈاکٹر کے پاس نہ لے جایا جاتا تو شاید وہ مر چکی ہوتی۔