1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دلِت اور مسلمانوں سے تعلیمی اداروں میں بھی امتیازی سلوک؟

جاوید اختر، نئی دہلی
14 نومبر 2019

طلبہ تنظیموں اور سیاسی جماعتوں کا الزام ہے کہ فاطمہ لطیف بھی اقلیتوں اور پسماندہ طبقات بالخصوص دلِت اور مسلم طلبہ کے ساتھ ادارہ جاتی امتیازی سلوک اور مسلسل ہراساں کرنے والے منظم گروہ کی بھینٹ چڑھ گئیں۔

https://p.dw.com/p/3T2hi
Indien Demonstration Student Rohit Vemula Selbstmord
تصویر: Getty Images/AFP/M. Kiran

بھارت کے بہترین تعلیمی اداروں میں سے ایک آئی آئی ٹی مدراس کی طالبہ فاطمہ لطیف کی مبینہ خودکشی نے ملک میں پسماندہ طبقات اور اقلیتی مسلمانوں کے ساتھ مذہبی اور سماجی بنیادوں پراعلٰی تعلیمی اداروں میں بھی امتیاز ی سلوک کے مسئلہ کو ایک بار پھر اجاگر کردیا ہے۔

معاملہ کیا ہے؟
انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (IIT) مدراس میں ایم اے ہیومینٹیز اور ڈیویلپمنٹ اسٹڈیز کی 19 سالہ طالبہ فاطمہ لطیف نو نومبر کو اپنے ہاسٹل میں کمرے کی چھت سے مردہ لٹکی ہوئی پائی گئی تھیں۔ فاطمہ کافی ذہین اور اپنے کلاس کی ٹاپر تھیں۔ پولیس نے مبینہ خودکشی کو غیر فطر ی موت قرار دے کر معاملہ درج کیا ہے لیکن فاطمہ کے والد عبداللطیف کاکہنا ہے کہ فاطمہ کے موبائل فون میں جو تحریر ملی ہے اس میں ان کی بیٹی نے اپنی موت کے لیے ایک پروفیسر کو ذمہ دار قرار دیا ہے۔ ان کی بیٹی نے مذکورہ پروفیسر کی طرف سے پریشان کرنے کے متعلق پہلے بھی شکایت کی تھی۔ فاطمہ نے موبائل فون میں لکھا ہے، ''میرا نام اور میری شناخت میرے لیے مسئلہ بن گیا ہے۔"

اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک
طلبہ کی ایک ملک گیر تنظیم اسٹوڈنٹس اسلامک آرگنائزیشن آف انڈیا کے صدر لبید شافی نے فاطمہ لطیف کی مبینہ خودکشی کے حوالے سے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ”یہ کوئی عام خودکشی کا معاملہ نہیں ہے بلکہ اسلاموفوبیا اور ذات پات پرمبنی رویوں کے سبب ادارہ جاتی قتل کا معاملہ ہے۔ یہ اقلیتی اور پسماندہ طبقات بالخصوص مسلمانوں اور دلِتوں کے ساتھ امتیازی سلوک اور انہیں ہراساں کرنے کے وسیع تر منظم پیٹرن کا حصہ ہے۔" لبید شافی کا مزید کہنا تھا، ”اس ملک میں ادارہ جاتی امتیازی سلوک اور نسل پرستی ایک حقیقت ہے جس کا روہت ویمولا، ڈاکٹر پائل تاڑوی، فاطمہ لطیف اور دیگر بہت سے ہونہار نوجوان طلبہ شکار ہوگئے۔"

روہت ویمولا، پائل تاڑوی، نجیب احمد
فاطمہ لطیف کی خودکشی کے واقعہ سے صرف پانچ ماہ قبل مئی 2019ء میں ممبئی کے مشہور نائر اسپتال میں پوسٹ گریجویٹ میڈیکل کی طالبہ ڈاکٹر پائل تاڑوی اپنے ہاسٹل میں مردہ پائی گئی تھیں۔ 26 سالہ پائل اپنے مسلم بھیل قبیلہ میں میڈیکل کی اعلٰی تعلیم حاصل کرنے والی پہلی خاتون تھیں۔ خودکشی کاانتہائی قدم اٹھانے سے قبل انہوں نے والدین کے نام خط میں لکھا تھا کہ نچلی ذات سے تعلق رکھنے کی وجہ سے انہیں اپنے ساتھیوں اور بعض پروفیسروں سے اہانت آمیز سلوک کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا اور یہ کہ سینئر طلبہ ٹوائلٹ سے آکر اپنے پاؤں اس کے بستر سے پونچھ دیتے تھے۔ پائل کے والدین نے کالج حکام سے اس معاملے کی تحریری شکایت کی تھی لیکن اس پر کوئی کارروائی نہ کی گئی۔ 
حیدرآباد یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کے طالب علم روہت ویمولا کو بھی جنوری 2016ء میں ادارہ جاتی امتیازی سلوک کا شکار ہوکر موت کو گلے لگانے کے لیے مجبور کر دیا گیا تھا۔ روہت ویمولا کی خودکشی کے بعد ملک بھر میں تعلیمی اداروں میں زبردست احتجاجی مظاہرے ہوئے تھے اور یہ معاملہ سیاسی صورت اختیار کرگیا تھا۔
نئی دہلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں ایم ایس سی بائیو ٹیکنالوجی کے طالب علم نجیب احمد کا معاملہ بھی اسی سے ملتا جلتا ہے۔ نجیب 15 اکتوبر 2016ء کو مشتبہ حالت میں اپنے ہاسٹل سے لاپتہ ہوگئے۔ عدالت کی سخت سرزنش کے باوجود ملک کی اعلٰی ترین تفتیشی ایجنسی سی بی آئی اور دہلی پولیس کی خصوصی تفتیشی ٹیم آج تک ان کا پتہ نہیں لگاسکی۔ اپنے بیٹے کی تلاش کے لیے ہر در پر دستک دے چکی نجیب کی والدہ فاطمہ نفیس کا سوال ہے کہ ان کے بیٹے کے لاپتہ ہونے میں مبینہ طور پر ملوث حکمران بی جے پی کی طلبہ تنظیم اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد کے ارکان سے پولیس آخر پوچھ گچھ کیوں نہیں کرتی ہے۔

ماہرین کی رائے
انڈین کونسل آف سوشل سائنس ریسرچ کے سابق چیئرمین اور جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں پروفیسر ایمریٹس، سُکھ دیو تھوراٹ کا ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہنا تھا، ”مختلف تحقیقات میں یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ خودکشی کے ان غیر معمولی واقعات میں ذات پات کی بنیاد پر امتیازی سلوک اہم رول ادا کرتا ہے۔" لیکن کیا اس کا کوئی حل ہے؟ اس سوال کے جواب میں پروفیسر تھوراٹ کہتے ہیں، ”سب سے پہلے تو یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ اعلٰی تعلیمی اداروں میں امتیازی سلوک ہوتا ہے۔ اس حقیقت کی تردید سے مسئلے کو حل کرنے میں مدد نہیں ملے گی۔ یہ درست ہے کہ خودکشی کے بعض واقعات انفرادی ہوسکتے ہیں لیکن اسے اتفاق تو نہیں کہا جاسکتا کہ خودکشی کے 25 معاملات میں سے 23 کا تعلق دلت طلبہ سے تھا۔اس لیے پالیسی سازوں کو پہلے تردید کے مرحلے سے باہر نکلنا ہوگا۔"
بھارت میں مسلمانوں کی تعداد 14.2فیصد ہے لیکن بھارت کے اعلی تعلیم کے محکمے کے 2014ء میں جاری کیے گئے سروے کے مطابق اعلٰی تعلیمی اداروں میں ان کی تعداد صرف 3.94 فیصد ہے۔ 
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایسے وقت میں جب ہونہار طلبہ کی حوصلہ افزائی کی جانا چاہیے انہیں ذہنی طور پر ہراساں کیا جاتا ہے۔ مسلم فرقہ کی کوئی طالبہ تمام رکاوٹوں کو پار کر کے اعلیٰ تعلیمی اداروں تک پہنچتی ہے تو اسے بھی ناخوشگوار حالات سے دوچار ہونا پڑتا ہے اور اگر کوئی طالبہ خودکشی کرتی ہے تو یہ ایک لڑکی کی نہیں بلکہ ایک کمیونٹی کے امنگوں کی خودکشی ہوتی ہے۔ ان تجزیہ کاروں کے مطابق ایسے واقعات سے مسلم لڑکیاں مستقبل میں اعلٰی تعلیم کی طرف جانے سے گھبرائیں گی۔

انکوائری کا مطالبہ
دریں اثنا فاطمہ لطیف کی خودکشی کے واقعے کی متعدد سیاسی جماعتوں اور طلبہ تنظیموں نے سخت مذمت کی ہے اور اس کے خلاف احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں۔ علاقائی سیاسی جماعت ایم ایم کے نے اس واقعے کی اعلٰی سطحی انکوائری کا مطالبہ کرتے ہوئے اسے مذہبی امتیازی سلوک کا نتیجہ قرار دیا ہے۔ پیپلز فرنٹ آف انڈیا نے اس واقعہ کو 'ادارہ جاتی امتیازی سلوک‘ کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اعلٰی تعلیمی اداروں کو پسماندہ طبقات کے طلبہ کے لیے قبرستان بننے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ ویلفیئر پارٹی آف انڈیا نے کہا، ”فاطمہ لطیف کو ایک گیس چیمبر میں قتل کردیا گیا جہاں نفرت کو گیس کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔"

ڈی ڈبلیو کے ایڈیٹرز ہر صبح اپنی تازہ ترین خبریں اور چنیدہ رپورٹس اپنے پڑھنے والوں کو بھیجتے ہیں۔ آپ بھی یہاں کلک کر کے یہ نیوز لیٹر موصول کر سکتے ہیں۔