1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت: ریاستی انتخابات میں بی جے پی کو سخت مقابلے کا سامنا

عدنان اسحاق4 اپریل 2016

آج بھارت کی دو ریاستوں میں انتخابات ہو رہے ہیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی قوم پرست بھارتیہ جتنا پارٹی کو مقامی جماعتوں سے سخت مقابلے کا سامنا ہے۔

https://p.dw.com/p/1IOvL
تصویر: Reuters/A. Abidi

آج بھارتی ریاست مغربی بنگال اور آسام میں لاکھوں ووٹرز اپنا حق رائے دہی استعمال کر رہے ہیں۔ ماہرین کے مطابق مغربی بنگال میں حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے کامیابی کے امکانات قدرے معدوم ہیں جبکہ آسام میں نتائج بے جی پے کے حق میں آ سکتے ہیں۔ آسام چائے کی کاشت کی وجہ سے مشہور ہے اور اس ریاست میں پڑوسی ملک بنگلہ دیش کے شہریوں کی ایک بڑی تعداد غیر قانونی طور پر مقیم ہے۔ یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ بی جے پی نے اپنی انتخابی مہم میں ان غیر قانونی تارکین وطن کو واپس بھیجنے کی بات کی ہے۔

ماہرین کے مطابق بی جے پی ان دونوں ریاستوں میں زیادہ سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے کی کوشش کرے گی تاکہ پارلیمان کے ایوان بالا یعنی راجیہ سبھا میں اسے اکثریت حاصل ہو سکے۔ مودی حکومت کو اصلاحات کے اپنے منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے راجیہ سبھا میں اکثریت کی ضرورت ہے۔ ریاستی انتخابات میں حاصل ہونے والی نشستوں پر راجیہ سبھا کی 245 سیٹوں کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ دو سال قبل عام انتخابات میں کامیابی کے بعد وزیراعظم مودی نے کاروبار میں آسانی اور معیشت میں بہتری لانے کے وعدے کیے تھے۔ گزشتہ برس بھی دو ریاستوں میں ہونے والے انتخابات میں بی جی پی کو شکست کا منہ دیکھنا پڑا تھا۔

Indien Wahlen Rede Narendra Modi
تصویر: Getty Images/AFP/M. Sharma

نئی دہلی میں ایک تھنک ٹینک سے منسلک نیلنجان سرکار کے مطابق، ’’یہ واضح ہے کہ ریاستی انتخابات میں بی جے پی کی کارکردگی متاثر کن نہیں ہے۔ اگر 2016ء میں بھی وہ کامیاب نہ ہو سکی تو یہ ان کی جماعت کے لیے اچھا نہیں ہو گا۔‘‘

مغربی بنگال میں ووٹرز کی تعداد 3.8 ملین ہے جبکہ آسام میں تقریباً 9.4 ملین ووٹرز ہیں۔ 2011ء سے مغربی بنگال کی باگ ڈور ممتا بینرجی کے ہاتھوں میں ہے اور وہ عوامی سطح پر انتہائی مقبول بھی ہیں۔ ان کا تعلق آل انڈیا ترینیمول کانگریس پارٹی سے ہے۔ نیلنجان سرکار کہتے ہیں، ’’آسام وہ واحد ریاست ہے جہاں بی جے پی کامیاب ہو سکتی ہے اور یہ فتح ان کے لیے اس لیے بھی ضروری ہے کہ اس طرح پارٹی کارکنوں کے حوصلے بلند کرنے میں مدد ملے گی۔‘‘

ان دو ریاستوں میں ہونے والے انتخابات کا یہ پہلا مرحلہ ہے اور اگلے ہفتوں کے دوران مختلف علاقوں میں ووٹنگ کا سلسلہ جاری رہے گا۔