1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت: ’لو جہاد‘ آرڈیننس کے جواز پر سوالات

جاوید اختر، نئی دہلی
27 نومبر 2020

بھارتی ریاست اترپردیش میں ہندوقوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت نے مبینہ ’لوجہاد‘ کے حوالے سے آرڈیننس کو منظوری دے دی ہے لیکن اس کے جواز پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/3lu6M
Indien Bhopal muslimische Braut BG Massenhochzeit
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Gupta

بھارتی ریاست اترپردیش میں یوگی ادیتیہ ناتھ کی قیادت والی بھارتیہ جنتا پارٹی حکومت نے مبینہ 'لوجہا د‘ کو روکنے کے لیے ایک آرڈیننس کو منظوری دے دی ہے، گورنر کی رسمی توثیق کے بعد اسے نوٹیفائی کردیا جائے گا۔ لیکن اس آرڈیننس کے جواز پر مختلف حلقوں کی جانب سے سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔

اس آرڈیننس کے مطابق شادی کے لیے دھوکہ، گمراہ، لالچ یا زبردستی مذہب تبدیل کرانے پر زیادہ سے زیادہ دس سال قید اور 25 ہزار روپے تک جرمانے کی سزا ہو سکتی ہے۔ یہ ایک غیر ضمانتی جرم ہوگا اور جو لوگ مذہب تبدیل کرنا چاہتے ہیں انہیں اس کے لیے ضلع مجسٹریٹ کو دو ماہ قبل اطلاع دینی ہو گی۔

’آرڈیننس کا انجام معلوم ہے‘

سپریم کورٹ کے وکیل اے رحمان نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ یوپی سے قبل مدھیہ پردیش اور ہریانہ کی حکومتوں نے بھی 'لوجہاد‘ کو قابل تعزیر جرم بنانے کے لیے قانون بنانے کا اعلان کیا تھا، آسام اور کرناٹک کی حکومتوں نے بھی یہی ارادہ ظاہر کیا ہے لیکن بھارتی آئین میں موجود ضمانت شدہ بنیادی حقوق کی روشنی میں ایسا کوئی بھی قانون فوری طورپر کالعدم قرار دے دیا جائے گا۔"

اے رحمان نے یاد دلایا کہ چند روز قبل ہی الہ آباد ہائی کورٹ نے ہندو۔ مسلم شادی کے خلاف دائر کردہ عرضی کو خارج کرتے ہوئے واضح لفظوں میں کہا ہے کہ قانون کی نگاہ میں ہندو اور مسلمان الگ الگ نہیں ہیں جب کہ گزشتہ روز ہی دہلی ہائی کورٹ نے بھی ایک ایسا ہی فیصلہ دیتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ کوئی بھی بالغ عورت جس کے ساتھ چاہے زندگی گزارے، کوئی قانون اسے نہیں روک سکتا۔ لہذا یوپی کے آرڈیننس کا انجام معلوم ہے۔"

انہوں نے کہا کہ دراصل بھارت کی تمام حکومتیں جس چیز سے چشم پوشی کر رہی ہیں اور جس قانون کا غلط استعمال ہورہا ہے وہ ہے ہندو شادی شدہ مردوں کا ایک بیوی کے ہوتے ہوئے دوسری شادی کے لیے اپنا مذہب تبدیل کر کے مسلمان ہوجانا۔کیونکہ صرف مسلمان ہی ایک سے زائد بیویاں رکھنے کے قانونی مجاز ہیں۔

’آئین کے بنیادی روح کے خلاف‘

سپریم کورٹ کے سینئر وکیل پرشانت بھوشن کا کہنا تھا کہ اترپردیش حکومت کی طرف سے لایا گیا یہ قانون آئین کی بنیادی روح کے خلاف ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو سے باتیں کرتے ہوئے کہا، ”بھارتی آئین کسی بھی مذہب کے دو بالغ لڑکے لڑکی کو باہمی رضامندی سے شادی کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ مذہب یا ذات کی بنیاد پر اس پر پابندی نہیں عائد کی جاسکتی۔ یوپی حکومت کا آرڈیننس بھارتی آئین میں ہر شخص کو دیے گئے بنیادی حقوق کی صریح خلاف ورزی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ اگر اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا تو یہ مسترد ہوجائے گا۔"

پرشانت بھوشن کا کہنا تھا کہ شادی کے لیے کسی طرح کالالچ دینے یا دباؤ ڈالنے یا کوئی غیر قانونی راستہ اپنانے کے سلسلے میں پہلے سے ہی قانون موجود ہے۔ ایسا کرنا قانوناً جرم ہے اور اس کے لیے دس برس تک قید کی سزا ہے۔ لہذا ایسے میں نئے آرڈیننس کی منطق سمجھ سے بالاتر ہے۔

مذہب کی جبری تبدیلی، مسلمان کردار ادا کریں، کرشنا کماری

گمراہ کن

اترپردیش کے سابق اعلی پولیس افسر وکرم سنگھ کا خیال ہے، ”اس نئے قانون کا جواز سمجھ میں نہیں آتا ہے۔ جتنے بھی جرائم کی بات اس آرڈیننس میں کی گئی ہے ان سب کے خلاف پہلے ہی قانون موجود ہے اور سخت سزاؤں کا التزام ہے۔" سابق ڈائریکٹر جنرل پولیس کا کہنا تھا،”آپ پہلے سے موجود قانون پر عمل تو کرا نہیں پارہے ہیں۔ غیر ضروری طورپر نئے قانون لا کر صرف گمراہ کر رہے ہیں۔"

بھارت کے سابق وزیر داخلہ اور سپریم کورٹ کے وکیل پی چدمبرم نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ،''لوجہاد پر قانون لانا ملک میں 'اکثریت کے ایجنڈے‘ کو نافذ کرنے کی کوشش ہے۔ بھارتی قانون کے تحت مختلف مذاہب کے لوگوں کے درمیان شادی کی اجازت دی گئی ہے حتی کہ تمام حکومتیں بھی اس کی حوصلہ افزائی کرتی رہی ہیں۔"

’100 سے زیادہ واقعات‘

اترپردیش کے وزیر برائے کابینی امور سدھارتھ ناتھ سنگھ نے اس آرڈیننس کو کابینہ سے منظوری کے بعد کہا تھا،''ریاست میں زبردستی مذہب تبدیل کروانے کے 100سے زیادہ واقعات رونما ہوئے ہیں۔ ان کے خلا ف قانون اس لیے ضروری ہے کہ دھوکہ، جھوٹ، طاقت اور بے ایمانی کے ذریعہ مذہب تبدیل کروانے کے جو واقعات ہو رہے ہیں وہ دل دہلانے والے ہیں۔"

ماہرین کے مطابق اترپردیش کی آبادی ساڑھے بیس کروڑ ہے اور اگر ایسے میں 100واقعات کا دعوی تسلیم کر بھی لیا جائے تو اس کا تناسب کتنا بنتا ہے یہ ہر کوئی سمجھ سکتا ہے۔

کیا ہندو لڑکیاں اتنی بے وقوف ہیں؟

ماہر عمرانیات خالد شیخ کے مطابق 'یہ تاثر دیا جارہا جیسے مسلم نوجوانوں کو معصوم اور بھولی بھالی ہندو لڑکیوں کو محبت کے جال میں پھنسانے، انہیں مسلمان بنا کرشادی کرنے او ربچے پیدا کرنے کے علاوہ کوئی کام نہیں ہے۔ ایسا کہنے والے خود اپنی بیٹیوں کی توہین کر رہے ہیں۔ کیا ہندو لڑکیاں اتنی بے وقوف ہیں کہ آسانی سے مسلم نوجوانوں کے چنگل میں پھنس جائیں اور اپنا مذہب اور خاندان تج کر ایک ایسے شخص کو جیون ساتھی بنائیں، جس کے رسم و رواج ان کے لیے اجنبی ہوتے ہیں؟"

ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ اس طرح کی شادی کرنے والی لڑکیوں میں بہت سے اعلی تعلیم یافتہ بھی ہوتی ہیں جو اپنا بھلا برا بہتر سمجھتی ہیں اور یہ کہنا اور سمجھنا بھی غلط ہوگا کہ بین المذاہب شادیاں تبدیلی مذہب کے بعد ہی انجام پاتی ہیں۔"

کوئی اعدادوشمار موجود نہیں

 لو جہاد سے متعلق آرڈیننس کا مسودہ تیار کرنے میں اہم رول ادا کرنے والے لاء کمیشن کے چیئرمین ریٹائرڈ جسٹس آدیتیہ ناتھ متل نے میڈیا کو دیے گئے ایک انٹرویو میں تسلیم کیا کہ لوجہاد کے متعلق ریاست کے محکمہ پولیس یا کسی دیگر محکمے کے پاس کوئی اعدادو شمار نہیں ہیں اور اس قانون کا مسودہ تیار کرنے کے لیے انہوں نے اخبارات کی خبروں پر انحصار کیا۔

گزشتہ برس پارلیمان میں بھی ایک سوال کے جواب میں مودی حکومت نے کہا تھا کہ قانون میں اسطرح کی کوئی تشریح نہیں ہے اور نہ ہی حکومت یا حکومتی اداروں کے پاس لو جہاد کے واقعات کے سلسلے میں کوئی اعدادو شمار موجود ہے۔

دو برس قبل سپریم کورٹ کے حکم پر قومی تفتیشی ایجنسی (این آئی اے) نے بین المذاہب شادیوں کی جانچ کی تھی۔ لیکن کسی بھی معاملے میں اسے زبردست تبدیلی مذہب اور مبینہ 'لوجہاد‘ کے ثبوت نہیں ملے تھے۔

پاکستان میں بھگوان سازی

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں