1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت، متعدد مذبح خانے بند، گوشت اور چمڑے کی صنعت متاثر

صائمہ حیدر
14 جون 2017

بھارت میں گائے اور بیل کے ذبیحے کے حوالے سے مودی حکومت کے سخت رویے کے سبب چمڑے اور گوشت کی صنعت متا‌ثر ہو رہی ہے۔ ملک میں جوتا سازی کے پیشے سے منسلک کئی افراد اس تناظر میں اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔

https://p.dw.com/p/2ehvC
Indien Kühe
اس پابندی سے گوشت کے کاروبار سے منسلک مسلمانوں اور نچلی ذات کے ہندوؤں کو نقصان اٹھانا پڑا ہےتصویر: AP

بھارت کے شہر آگرہ کی عقبی گلیوں میں جہاں صدیوں سے جوتے بنانے کا کام کیا جاتا تھا، اب چھوٹے تاجر اپنے ہاں کام کرنے والوں کو ملازمتوں سے فارغ کر رہے ہیں۔ جوتا سازی کے یہ پیشہ ور افراد انڈیا میں مسلم اقلیت سے تعلق رکھتے ہیں۔

 تین سال قبل بھارتیہ جنتا پارٹی کے بر سراقتدار آنے کے بعد سے دائیں بازو کے انتہا پسند خیالات رکھنے والے ہندؤں کی جانب سے گائے کو ذبح کرنے کے معاملے پر زیادہ سختی دیکھنے میں آئی ہے۔

 ہندو اکثریت کے ملک بھارت میں گائے کو مذہبی طور پر مقدس سمجھا جاتا ہے اور ملک کی متعدد ریاستوں میں اس جانور کو ذبح کرنے پر پابندی عائد ہے، جب کہ کچھ ریاستوں میں تو یہ باقاعدہ جرم ہے، جس کی سزا عمر قید ہے۔

انڈیا کی سب سے زیادہ آبادی والی ریاست اتر پردیش میں رواں برس مارچ میں گائے کے غیر لائسنس شدہ مذبح خانوں پر پابندی عائد کر دی گئی تھی جس سے مسلمانوں کی اجارہ داری والے اس کاروبار کو بہت نقصان پہنچا تھا۔ گزشتہ ماہ مودی حکومت نے گائے کے ساتھ ساتھ بیل کے ذبیحے پر بھی پابندی عائد کر دی۔ بیل سے گوشت اور چمڑا حاصل کیا جاتا ہے۔

اس پابندی سے گوشت کے کاروبار سے منسلک مسلمانوں اور نچلی ذات کے ہندوؤں کو نقصان اٹھانا پڑا ہے۔

Afghanistan Herat Lederfabrik
بھارت میں چمڑے اور گوشت کی صنعت سے لاکھوں افراد وابستہ ہیںتصویر: DW/Shoib Tanha Shokran

 بھارت میں قصائیوں کی مسلم کمیونٹی کے نمائندے  عبد الفہیم قریشی کا کہنا ہے کہ اتر پردیش میں گوشت کی بعض مارکیٹوں میں جہاں گزشتہ برس تک ایک ہزار مویشیوں کا کاروبار ہوتا تھا، اس سال کم ہو کر صرف سو مویشی تک رہ گیا ہے۔

 پیداوار میں کمی کا مطلب یہ ہے کہ بھارت کی دو غریب کمیونیٹیز کے لیے جن میں مسلمان اور نچلی ذات کے ہندو شامل ہیں، ملازمتیں نہ ہونے کے برابر رہ جائیں گی۔

اتر پردیش میں چمڑے کے چند بڑے صنعتکاروں نے اتر پردیش حکومت کے اس اقدام کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ صرف لائسنس یافتہ مذبح خانوں کے چلنے سے اس صنعت کی ساکھ بہتر ہو گی۔

تاہم بھارت میں چمڑے اور گوشت کی صنعت سے لاکھوں افراد وابستہ ہیں اور ان دونوں صنعتوں سے ملک کو سالانہ سولہ بلین ڈالر سے زیادہ کی آمدنی ہوتی ہے۔

آگرہ میں جوتا سازی سے منسلک افراد کا کہنا ہے کہ اب اس شعبے میں وہ خود کو محفوظ تصور نہیں کرتے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ان لوگوں کو ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے حملوں کا خوف ہے۔

 آگرہ کے چھیاسٹھ سالہ جوتا ساز محمد مقیم نے روئٹرز کو بتایا،’’یہ ہمیں کمزور کرنا اور ہماری روٹی چھین لینا چاہتے ہیں۔‘‘ مقیم کے ہاں ملازم افراد اب اصلی چمڑے کے بجائے مصنوعی سامان سے جوتے تیار کرتے ہیں۔