1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات میں اضافہ

29 مارچ 2010

دنیا بھر میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتیوں کے واقعات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ آئے دن اس طرح کی خبریں اخبارات کی زینت بنتی ہیں۔ بہت سے معاشروں میںایسی خبروں کو چھپایا جاتا ہے اور ان میں بھارت کا بھی شمار ہوتا ہے۔

https://p.dw.com/p/MgT5
تصویر: UNICEF India/Sandip Biswas

 بھارت ميں دنيا بھر کے20 فيصد بچے رہتے ہيں۔ ان ميں سے زيادہ تر بھوک اور تنگی کا شکار اور مدد کے محتاج ہيں۔ بھارتی معاشرے ميں بچوں پر اکثر جنسی زيادتياں ہوتی ہيں، ليکن اس موضوع پر تقریباً خاموشی اختيار کی جاتی ہے۔ يہ زيادتياں عام طور پرگھروں، اسکولوں ميں يا پوليس کی طرف سے ہوتی ہيں۔ ليکن، ترقياتی امداد کے دائرے ميں دوسرے ملکوں سے آنے والے بھی ان زيادتيوں کے مرتکب ہوتے ہيں۔

Indische Polizisten bewachen die australische Hohe Kommission während der Vorbereitung eines Memorandums zu den rassistischen Überfällen in Australien
با اختیار طبقے سے تعلق رکھنے والوں کے خلاف بچوں پر جنسی زیادتی کے واقعات کی کم شکایات کی جاتی ہیںتصویر: AP

بھارت ميں بچوں پر جنسی زيادتيوں کا موضوع شجر ممنوعہ ہے۔ شاذونادر ہی اختيارات اور طاقت رکھنے والوں، مثلاً پوليس اہلکاروں،اساتذہ يا ہوسٹلوں کے نگرانوں کے خلاف شکايات درج کرائی جاتی يا اُن سے پوچھ گچھ کی جاتی ہے۔

تاہم،کچھ دن پہلے شمالی بھارت کے شہر چھتيس گڑھ ميں والدين نے یہ معاملہ اپنے ہاتھوں میں لے کر ايک پرائيوٹ اسکول کے پرنسپل کی پٹائی کر ڈالی۔ ایسا اس وجہ سے ہوا کہ اس سکول کی طالبات نے شکايت کی تھی کہ پچاس سالہ پرنسپل نے بہتر نمبر دینےکے لئے جنسی خواہشات پوری کرنے کا مطالبہ کيا تھا۔

 بھارت کے بہت سے بچوں کے لئے اس قسم کے واقعات روزمرہ کا معمول ہيں۔ بھارت کی وزارت برائے خواتين کے سن 2007 کے سروے کے مطابق 53 فيصد بھارتی بچے ايک يا کئی بار جنسی زيادتيوں کا نشانہ بنائے جاتے ہيں۔ اُس وقت کی وزير رينوکا چودھری نے اس سلسلے ميں چپ رہنے کی سازش کی بات کی تھی۔ اُن کا کہنا تھا کہ بھارت ميں بچوں پر جنسی زيادتی کو سرسری طور پر نظر انداز کردينے کی روايت ہے۔ بس يہی کہہ ديا جاتا ہے کہ ہمارے ہاں تو ايسا نہيں ہوتا۔

بچوں پر جنسی زيادتی زيادہ تر باپ کرتے ہیں اور يا پھر اُن کی تربيت کے دوسرے ذمے دار افراد۔ حقوق اطفال کے حاميوں کا کہنا ہے کہ حقيقی چيلنج يہ ہے کہ بچوں اور نوجوانوں ميں شکايات درج کرانے کا حوصلہ پيدا کيا جائے۔

بچوں پر جنسی زيادتيوں کا ارتکاب ترقياتی امداد کے لئے جنوب کے غريب ممالک کو جانے والے امدادی کارکن بھی کرتے ہيں۔ ترقياتی امداد کے کارکنوں کی، لڑکوں اور لڑکيوں پر زيادتيوں کا انکشاف بہت کم ہی ہوتا ہے۔ حقوق اطفال کی ماہر باربرا ڈيون ويلر کا کہنا ہے کہ بچوں کے لئے کام کرنے والی کوئی بھی تنظيم زيادتيوں کو امکان سے خارج قرار نہيں دے سکتی۔ بچوں کی امدادی تنظيم سيو دی چلڈرن کی مايا ڈينے کا کہنا ہے کہ بچوں اور عورتوں کو يہ توقع نہيں ہوتی کہ خاص طور پر کليسائی اور امدادی تنظيموں ميں اس قسم کی زيادتياں ہوسکتی ہيں۔ ليکن ايسی حرکتيں کرنے والے اس ماحول ميں خود کو بخوبی چھپا سکتے ہيں۔

Kinder in Indien Monsoon Überschwemmung holen sich Kleidung ab
بھارت میں بچوں کی بڑی تعداد گداگری کرنے پر بھی مجبور ہےتصویر: AP

سيو دی چلڈرن نامی بچوں کی امدادی تنظيم کی برطانوی شاخ نے سن 2008 ميں ايک جائزہ شائع کيا تھا جس کے مطابق خاص طور پر يتيم اور ايسے کم سن بچوں کو جنسی استحصال کا زيادہ خطرہ ہوتا ہے جنہيں اُن کے والدين سے الگ کرديا گيا ہو۔

چند سال پہلے ممبئی ميں دو برطانوی شہريوں نے غيرملکی امداد سے بے سہارا لڑکوں کے لئے ہوسٹل کھولا تھا ليکن وہ کئی برسوں تک يہاں بچوں اور نوجوانوں کو اپنی جنسی خواہشات کا نشانہ بناتے رہے۔ بعد ميں بھارتی عدالت نے انہيں طويل سزائے قيد سنائی تھی۔

رپورٹ : شہاب احمد صدیقی

ادارت : کشور مصطفیٰ