1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت میں جرمن سرمایہ کاری: اندیشے اور امکانات

30 مئی 2011

انڈو جرمن چیمبر آف کامرس کے سرمایہ کاری سے متعلق پہلے سروے کے مطابق گھپلے، افسر شاہی کا رویہ اور ناقص بنیادی ڈھانچہ بھارت میں بیرونی سرمایہ کار ی اور تجارت کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹیں ہیں۔

https://p.dw.com/p/11QeU
جرمن چانسلر میرکل دو جون تک بھارت کا دورہ کریں گیتصویر: AP

تاہم ان حالات کے باوجود جرمن صنعتی ادارے بھارت کو ابھی بھی سرمایہ کاری کے لیے ایک بہتر جگہ تصور کرتے ہیں۔ بزنس مانیٹر سن 2011 نامی اس سروے کے مطابق دولت مشترکہ کھیلوں اور 2G اسپیکٹرم یا ٹیلی مواصلات کے گھپلے کی وجہ سے بھارت کے بین الاقوامی امیج کو نقصان پہنچا ہے لیکن اس سے سرمایہ کاروں کے رویے میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی۔ حالانکہ تقریباﹰ 85 فیصد لوگوں کا خیال ہے کہ بدعنوانی کے واقعات سے بھارت کا امیج متاثر ہوا ہے، لیکن دلچسپ بات یہ ہےکہ صرف سات فیصد سرمایہ کاروں کا خیال ہے کہ بھارت پر ان کا اعتماد متزلزل ہوا ہے۔

Deutschland Wirtschaft Logo Bayer Bayer-Kreuz in Leverkusen
بوش، سیمینز اور بائر جیسے جرمن ادارے بھارت میں جانے پہچانے نام ہیںتصویر: picture alliance/dpa

ترانوے فیصد جرمن سرمایہ کاروں کا کہنا ہے کہ بھارت ان کے لیے بہتر جگہ ہے۔ بھارت میں انڈو جرمن چیمبر آف کامرس کے ڈائریکٹر جنرل بیرن ہارڈ اسٹن ریوکیو نے ڈوئچے ویلے سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ”بیشتر جرمن کمپنیوں کا خیال ہے کہ بلاشبہ ان واقعات سے بھارت کے امیج کو نقصان پہنچا ہے لیکن جب ہم نے ان سے پوچھا کہ کیا وہ اپنی تجارت ختم یا کم کر دیں گی، تو ان کا جواب تھا، نہیں“۔

خیال رہے کہ بھارت میں اس وقت 120سے زائدجرمن کمپنیاں کام کرتی ہیں، جن کے ملازمین کی مجموعی تعداد ایک لاکھ 73 ہزار بنتی ہے جبکہ ان کمپنیوں کی وجہ سے بھارت میں مختلف شعبوں میں تین لاکھ سے زائد کارکنوں کو ملازمت ملی ہوئی ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ جرمن کمپنیاں بھارت میں ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہیں۔ بیرن ہارڈ اسٹین ریوکیو نے کہا کہ بھارت اور جرمنی کے درمیان تجارت میں پچھلے سال بھی اضافہ ہوا جبکہ سال رواں کی پہلی سہ ماہی میں اس میں 30 فیصد کا اضافہ دیکھنے میں آیا۔ انہوں نے کہا کہ بھارت اور یورپی یونین کے درمیان آزاد تجارتی معاہدہ ہو جانے کے بعد یورپی یونین کے ساتھ ساتھ جرمنی کے ساتھ بھی دوطرفہ تجارت میں خاطر خواہ اضافہ ہوگا۔

اس سوال کے جواب میں کہ آخر جرمن کمپنیاں جس بڑے پیمانے پر چین میں سرمایہ کاری کر رہی ہیں، وہ بھارت میں دیکھنے کو کیو ں نہیں ملتا، مسٹر اسٹن ریوکیو نے کہا کہ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ چین نے بھارت سے بہت پہلے اپنے دروازے غیر ملکی کمپنیوں اور براہ راست سرمایہ کاری کے لیے کھول دیے تھے۔ تاہم انہوں نے کہا، ”جب آپ دونوں ملکوں میں ترقی کے گراف کا موازنہ کرتے ہیں، تویہ تقریباﹰ یکساں ہے۔ اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ جرمن کمپنیوں کی طرف سے چین میں سرمایہ کاری کی شرح تقریباﹰ بھارت کے برابر ہی ہے۔‘‘

Deutschland Siemens Stellenabbau
بھارت میں روزگار کی منڈی میں نئے مواقع پیدا کرنے میں جرمن کمپنیوں کا کردار بڑا اہم ہےتصویر: AP

انڈو جرمن چیمبر آف کامرس کے ڈائریکٹر جنرل نے کہا کہ جرمن کمپیناں بھارت میں اس لیے بھی سرمایہ کاری کی خواہشمند ہیں کہ بھارت کی داخلی منڈی بڑی وسیع ہے۔ بھارت کا قانونی اور تجارتی نظام جرمن کمپنیوں کی طرف سے سرمایہ کاری کے لیے بڑا موافق ہے۔ انہوں نے کہا کہ بہت سی جرمن کمپنیاں ایسی ہیں، جو بھارت میں کئی دہائیوں سے کام کر رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بوش، سیمینز، بی اے ایس ایف اور بائر جیسی کمپنیاں آج بھارت میں جانے پہچانے نام بن چکی ہیں۔

اس سروے میں کہا گیا ہے کہ بھارت میں کام کرنے والی ایک تہائی سے زائد جرمن کمپنیاں اس سال کے آخر تک اپنے اسٹاف میں 20 فیصد کا اضافہ کرنے والی ہیں۔ اس کے علاوہ تقریباﹰ نصف سے زائد کمپنیاں اپنے اسٹاف کی تنخواہوں میں 10 سے 15 فیصد کا اضافہ بھی کریں گی۔ تاہم 31 فیصد جرمن کمپنیوں کے خیال میں ناکافی بنیادی ڈھانچہ، 19 فیصد کے خیال میں بدعنوانی اور 15 فیصد کے مطابق نااہلی سے عبارت نوکر شاہی نظام بھارت میں بیرونی سرمایہ کاری کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹیں ہیں۔

رپورٹ: افتخار گیلانی، نئی دہلی

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں