1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت میں حقوق انسانی کی پامالی اور دوہرے معیار کا مسئلہ

28 مارچ 2021

بھارتی جیلوں میں قید انسانی حقوق اور سماجی شعبے کے کارکنوں کو جس طرح کے سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے، وہ باعث تشویش ہے۔ ان میں بوڑھے اور جسمانی معذور بھی شامل ہیں۔ حالانکہ ہم سب جانتے ہیں کہ قیدیوں کے بھی حقوق ہوتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/3rFL8
تصویر: privat

پیدائشی طورپر معذور دہلی یونیورسٹی کے سابق پروفیسر ڈاکٹر جی این سائی بابا گزشتہ سات سال سے ناگپور کی سینٹرل جیل میں بند ہیں، وہ  کووڈ کا شکار بھی ہو چکے ہیں لیکن ابھی تک انہیں بغرض علاج ہسپتال منتقل نہیں کیا گیا۔ اسی طرح قبائلیوں کے لیے سرگرم کارکن 83 سالہ فادر اسٹین سوامی کو بھی طبی بنیاد پر ضمانت نہیں دی جا رہی۔ وہ رعشہ یا پارکنسن کا شکار ہیں اور قوت سماعت سے بھی محروم ہو چکے ہیں۔

پروفیسر سائی بابا دہلی یونیورسٹی میں انگریزی پڑھاتے تھے۔ وہ جسمانی طور پر اس قدر معذور ہیں کہ اپنی فطری ضروریات کے لیے بھی دوسرں پر انحصار کرتے ہیں۔ انہیں 2014ء میں بھارت کے مغربی صوبہ مہاراشٹر کی پولیس نے دہلی سے ان کی رہائش گاہ سے گرفتار کیا تھا اور 2017ء میں انہیں کی ایک مقامی عدالت نے بائیں بازو کی شدت پسند تنظیموں کے ساتھ رابطے رکھنے اور ملک کے خلاف ”بغاوت" کے الزام میں عمر قید کی سزا سنائی تھی۔

ماؤ نواز مسلح گروپوں نے ملک کے جنگلاتی اور معدنیات سے مالامال علاقوں میں شورش برپا کر رکھی ہے۔ تاہم حقو ق انسانی کے سرکردہ کارکنوں، دانشوروں اور وکلاءنے سائی بابا کی رہائی کے لیے ایک باضابط انجمن بنائی ہے، جو'دی کمیٹی فار دی ڈیفینس اینڈ ریلیز آف ڈاکٹر جی این سائی بابا‘ کے نام سے موسوم ہے۔ اس کمیٹی میں بوکر انعام یافتہ ادیبہ ارون دھتی رائے، سپریم کورٹ کے نامور وکیل پرشانت بھوشن، کمیونسٹ پارٹی کے جنرل سکریٹری  ڈی راجا، دہلی یونیورسٹی ٹیچرز ایسوسی ایشن کی سابق سربراہ پروفیسر نندیتا نارائین، فلمساز سنجے کک وغیرہ جیسی بہت سی شخصیات شامل ہیں۔

کمیٹی کا اصرار ہے کہ سائی بابا بے قصور ہیں۔ انہیں اس معاملہ میں پھنسایا گیا ہے۔ جیسا کہ قبائلیوں اور دلتوں کے حقوق کے لیے سرگرم ایک درجن سے زائد کارکنوں کو مہاراشٹر کے بھیما کورے گاؤں میں 31 دسمبر2017ء کو منعقدہ یلغار پریشد کیس میں مبینہ طور پر پھنسایا گیا ہے۔

سائی بابا کی اہلیہ وسنتا نے درد بھرے لہجہ میں سوال کیا کہ کیا انسانی حقوق اور طبی بنیادیں صرف پرگیہ ٹھاکر، کرنل پروہت، سوامی اسمینند نیز مایاکونڈنانی اور بابو بجرنگی وغیرہ کے لیے ہیں؟ جو دہشت گردی سمیت انسانیت کے خلاف سنگین جرائم کے باوجود ضمانت پر رہا کر دیے گئے ہیں۔ اول الذکرتینوں متعدد بم دھماکوں بشمول سمجھوتہ ایکپریس حملے میں ملوث تھے۔ ان سب کا تعلق ہندو قوم پرست حکمراں جماعت سے ہے۔ سوامی اسیمنند تو میجسٹریٹ کے سامنے حلفیہ بیان ریکارڈ کرا چکے ہیں کہ سمجھوتہ ایکپریس سمیت حیدرآباد کی مکہ مسجد، اجمیر میں خواجہ صاحب کی درگاہ اور دیگر مقامات پر بم دھماکوں میں ان کے ہندتوا کارکن ملوث تھے۔ انہوں نے آر ایس ایس کے ایک بڑے لیڈر کا بھی نام لیا تھا، جنہیں بعد ازاں بچا لیا گیا۔ ممبئی ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس بی جے کولسے پاٹل تو ہر جگہ یہ بات کہتے ہیں کہ ‘‘سارے بم دھماکے آر ایس ایس کے لوگوں نے کرائے تھے اور ان میں مسلم نوجوانوں کو پھنسایا گیا‘‘۔ 

ان میں سے پرگیہ ٹھاکر تو بھارتیہ جنتا پارٹی کے ٹکٹ پر بھارتی پارلیمان کی رکن 'منتخب‘ ہوئی ہیں۔ جب کہ مایا کونڈنانی نریندر مودی کے زیر قیادت گجرات حکومت میں وزیر رہ چکی ہیں۔ کونڈنانی اور بابو بجرنگی اور دیگر کو 2002ء گجرات فسادات کے دوران احمدآباد کے نردو اپاٹیہ قتل عام کے واقعے میں ملوث ہونے کے الزام میں عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی لیکن یہ سب ضمانت پر آزاد  گھوم رہے ہیں۔

یہ نکتہ بھی قابل غور ہے کہ مئی 2014ء میں ہندو قوم پرستوں کے برسر اقتدار آنے کے بعد سے گجرات فسادات اور بم دھماکوں میں ملوث تمام ماخوذ افراد بتدریج ضمانت پر چھوڑ دیے گئے ہیں، جن کا تعلق کسی نہ کسی درجہ میں آر ایس ایس کی ذیلی تنظیموں سے ہے۔

دوسری طرف 58 سالہ سائی بابا ہیں، جو اپنی زندگی کے لیے دوسروں پر پوری طرح سے منحصر ہیں۔ اگر انہیں رہا کیا جائے گا تو وہ ملک کے لیے کونسا خطرہ بن سکتے ہیں؟۔ سائی بابا کو جیل انڈا سیل میں رکھا گیا ہے، جہاں سنگین مجرموں کو رکھا جاتا۔اس سیل میں متعدد قیدی کووڈ کا شکار ہیں اور ان میں سے ایک کی موت بھی ہو چکی ہے۔

انہیں کیوں ہسپتال نہیں لے جایا گیا؟ ایک پولیو زدہ ایسا شخص ہے، جو چل بھی نہیں سکتا صرف اس کا دل اور دماغ کام کرتا ہے کیوں اسے ریاست (حکومت) ضمانت پر رہا کرنے سے ڈرتی ہے؟ میرے خیال میں محترمہ وسنتا کا اپنے شوہر کے بارے میں یہ کرب انگیز احساس اور شکوہ بیجا نہیں ہے، جو اس وقت ملک میں حقوق انسانی کے حوالے سے دوہرے معیار کی صورت حال کی بھر پورعکاسی کرتا ہے۔ 

83 سالہ فادر اسٹین سوامی کا کیس بھی کچھ اسی نوعیت کا ہے۔ انہیں تفتیشی ایجنسی این آئی اے کی ایک عدالت نے ضمانت دینے سے انکار کر دیا ہے۔ سوامی کو صوبہ جھارکھنڈ کے دارالحکومت رانچی سے اکتوبر 2020ء میں گرفتار کیا گیا تھا۔ وہ نوی ممبئی کے تلوجہ سنیٹرل جیل میں بند ہیں۔ سوامی پارکینسن کے سبب کھانے کا نوالہ بھی پکڑ نہیں پاتے۔ وہ سیال چیزیں ہی بطورغذا استعمال کر سکتے ہیں لیکن کئی مہینوں کے انتظار کے بعد انہیں اسٹرا (نلکی) فراہم کی گئی۔ اسی کیس میں گرفتار ایک اور بزرگ 80 سالہ انقلابی شاعر وار ویرا راؤ کو حال میں بڑی مشکلوں کے بعد عدالت نے عارضی طور پر بغرض علاج رہا کیا۔ وہ ضعیفی سے متعلق کئی بیماریوں کا شکار ہیں خاص طور سے ان کا غیرارادی طور پر پیشاب نکل جاتا ہے۔ ان کے علاوہ اور بھی متعدد کارکن قید ہیں، جو عمررسیدہ ہیں۔

ان گرفتار کیے گئے سماجی کارکنوں پر ممنوعہ ماؤ نواز تنظیم کے ساتھ مل کر مبینہ طور پر ”ملک میں بدامنی پھیلانے او ر مودی حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش کا الزام ہے۔ اس سازش کے لیے گرفتار ایک نوجوان کارکن رونا ولسن کے لیپ ٹیپ میں پائے گئے ایک لیٹر کو بنیاد بنایا گیا ہے۔ مگرامریکا کی ڈیجیٹل فرم آرسینل کنسلٹنگ کی فورنسک جانچ میں پایا گیا کہ یہ خط ولسن کے لیپ ٹاپ کے ساتھ چھیڑ چھار کر کے اور مال ویئر کا استعمال کر کے اس میں ڈالا گیا تھا کہ جس میں مودی حکومت کا تختہ پلٹنے کا تذکرہ ہے۔ ان کے وکیلوں نے کہا کہ امریکی تفتیشی ادار ے کی فراہم کردہ رپورٹ نے جھوٹ کا پردہ فاش کر دیا ہے کہ ان کے موکلین کو کس طرح پھنسایا گیا ہے۔  

 ان درجنوں کارکنوں کو انسداد دہشت گردی کے انتہائی سخت قانون یو اے پی اے کے تحت گرفتار کیا گیا ہے، جس میں ضمانت ملنا انتہائی مشکل امر ہے۔ اسی طرح دہلی میں گزشتہ فروری میں ہوئے فسادات میں گرفتار طلبا پر بھی اس قانون کا اطلاق کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ حکومت مخالفین کے خلاف ملک سے غداری کے قانون کا بے دریغ استعمال ہو رہا ہے۔ گزشتہ سال اس میں 165 فی صد کا اضافہ ہوا ہے۔

میرا یہ مشاہدہ ہے کہ آج جو بھی سرکاری پالیسی پر نکتہ چینی کرتا ہے یا مظلوموں کی حق میں کھڑا ہوتا ہے تو اس پر سرکاری عتاب کسی بھی وقت برس سکتا ہے۔ انسانی حقوق کی پامالی اب یہ عام سی بات بن چکی ہے یہی وجہ ہے کہ چند دن قبل نئی دہلی کے دورہ پر آئے امریکی سکریٹری دفاع لائیڈ آسٹن نے بھی بھارتی حکام کے سامنے حقوق انسانی کی پامالی کا مسئلہ اٹھایا تھا، حکومتی حلقوں کی طرف سے جس کی پردہ پوشی کی کوشش کی گئی تھی۔