1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت میں عام انتخابات سے پہلے ٹوٹتے بنتے رشتے

افتخار گیلانی، نئی دہلی9 مارچ 2009

بھارت میں عام انتخابات کا اعلان ہوتے ہی زبردست سیاسی سرگرمیاں شروع ہوجاتی ہیں۔ برسوں پرانے بعض اتحاد ٹوٹ جاتے ہیں اور نئے نئے حلیف اور اتحاد بننے لگتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/H8gE
بھارتی ریساس گجرات کے شہر احمد آباد میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے کارکنان انتخابی نعروں کے ساتھتصویر: AP

الیکشن کمیشن کی طرف سے عام انتخابات کی تاریخوں کے اعلان کے ایک ہفتہ گذر جانے کے بعد ملک کی دو بڑی سیاسی پارٹیاں حکمراں کانگریس پارٹی اور سب سے بڑی اپوزیشن بھارتیہ جنتا پارٹی انتخابی حلیفوں کی تلاش میں ہیں کیوں کہ دونوں کو ہی اس بات کا پورا اندازہ ہے کہ وہ حلیف جماعتوں کی مدد کے بغیرصرف اپنے بل بوتے پرآئندہ حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔

بھارتیہ جنتا پارٹی کی قیادت والے قومی جمہوری محاذ یعنی این ڈی اے کے وزیر اعظم کے امید وار لال کرشن اڈوانی کا کہنا ہے کہ بھارت کی سیاست پر تقرےیباﹰ چار دہائیوں تک صرف ایک پارٹی کا ہی غلبہ رہا لیکن این ڈی اے نے اسے توڑ کر دو پارٹی سیاست کا جو سلسلہ شروع کیا اس سے ملک میں بائی پولر پولٹکس مضبوط ہوئی ہے۔

Wahlen in Indien Wahlsieg für die Kongresspartei
کانگریس پارٹی کے حمایتی سونیا گاندھی کی تصاویر کے ساتھ نعرے لگاتے ہوئےتصویر: AP

بھارت میں علاقائی پارٹیاں بعض وجوہات کی بنا پر ان دونوں اتحادوں یعنی متحدہ ترقی پسند اتحاد (UPA)اور قومی جمہوری محاذNDA) میں سے کسی ایک کا ساتھ دینے کے لئے مجبور ہیں۔ لیکن حالیہ دنوں میں ایک تیسرا محاذ بھی بڑی قوت کے ساتھ ابھر کر سامنے آرہا ہے۔ جس کی قیادت بائیں بازو کی جماعتیں کررہی ہیں۔ اس اتحاد کو پچھلے دنوں اس وقت زبردست تقویت حاصل ہوئی جب اڑیسہ میں این ڈی اے کے گیارہ سال پرانے اتحادی جنتا دل نے بی جے پی سے ناطہ توڑ لیا۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ بےجو جنتا دل تیسرے محاذ میں شامل ہوجائے گا۔ اس سے بی جے پی کے خیمے میں خاصی مایوسی ہے اور ایل کے اڈوانی کے وزیر اعظم بننے کا خواب شاید شرمندہ تعبیر نہ ہوسکے۔

کانگریس پارٹی کی ترجمان جینتی نٹراجن کہتی ہیں: ’’این ڈی اے اتحاد اب ایک معتبر اتحاد نہیں رہ گیا ہے۔ این ڈی اے کی حلیف جماعتیں روز بروز ٹوٹ بکھر رہی ہیں۔ اس کے ساتھ صرف ریاست بہار کی چند پارٹیوں کو چھوڑ کر کوئی بڑی پارٹی نہیں رہ گئی ہے اور یہ پارٹیاں بھی کب ساتھ چھوڑ دیں کہا نہیں جاسکتا۔‘‘

لیکن کانگریس پارٹی کا حال بھی کچھ زیادہ اچھا نہیں ہے۔ جنوبی بھارت کی 129 سیٹوں کے لئے ابھی تک اس کو کوئی اتحادی نہیں مل سکا ہے۔ دوسری طرف شمالی بھارت میں اترپردیش، بہار اور مغربی بنگال میں سیٹوں کی تقسیم کے سلسلے میں اسے اپنے اتحادیوں کے ساتھ سخت دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ملک کی سب سے بڑ ی ریاست اترپردیش میں سماج وادی پارٹی نے اکیلے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کرکے اتحاد کی امیدوں کو چکنا چور کردیا ہے تاہم کانگریس پارٹی کو اب بھی امید ہے کہ الیکشن سے قبل کوئی راستہ نکل آئے گا۔ جینتی نٹراجن کہتی ہیں :’’ہم نے اپنے دروازے ابھی کھلے رکھے ہیں۔ ہم ان تمام پارٹیوں سے اتحاد کرسکتے ہیں جو ہماری پالیسی اور ہمارے فلسفے سے متفق ہیں۔‘‘

Wahlen in Indien Flagge Kongresspartei
کانگریس پارٹی کے ایک انتخابی جلسے کا منظرتصویر: AP

انہوں نے کہاکہ کانگریس پارٹی اس بات کی بھی کوشش کررہی ہے کہ علاقائی سطح پر پارٹیوں کو اپنے قریب کیا جائے۔

اتحادوں کے اس بنتے بگڑتے عمل کے بیچ دونوں ہی بڑی پارٹیاں اپنی اپنی کامیابیوں کے دعوے کررہی ہے۔ بی جے پی کے صدر راج ناتھ سنگھ کا کہنا ہے کہ ملک بھر میں این ڈی اے کی جہاں جغرافیائی توسیع ہورہی ہے وہیں سیاسی توسیع بھی ہورہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ لال کرشن اڈوانی کی قیادت میں سیاسی جماعتوں کا اعتماد بڑھ رہا ہے اور عوام میں بھی این ڈی اے کی مقبولیت بڑھ رہی ہے ۔ لیکن کانگریس پارٹی کا دعوی ہے کہ مرکز میں ایک بار پھر اسی کی حکومت بنے گی جینتی نٹراجن کا کہنا ہے کہ یو پی اے کی تمام حلیف جماعتیں اتحاد کے ساتھ ہیں اور اس بات کے اشارے مل رہے ہےں کہ آئندہ مرکز میں ایک بار پھر یو پی اے کی ہی حکومت قائم ہوگی۔

تاہم دونوں پارٹیو ں کے ان دعووں کے بیچ تیسرا مورچہ دھیرے دھیرے اپنی جگہ بنا رہا ہے۔ کئی ریاستوں میں بااثر علاقائی پارٹیاں تیسرے مورچے کو زیادہ اہمیت دے رہی ہیں۔