1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت میں مائیکرو ہیلتھ انشورنس کا فروغ

17 اکتوبر 2009

بھارت میں ہر سال بہت سے مریض صرف غربت کی وجہ سے ہسپتال کا خرچ نہیں اٹھا پاتے اور اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ ہیلتھ انشورنس اس کا ایک اچھا علاج ہے تاہم بھارت میں اب تک عام شہری کی پہنچ اس تک نہیں۔

https://p.dw.com/p/K9AU
تصویر: AP

مائیکرو ہیلتھ انشورنس کا بنیادی مقصد کم پیسے ادا کرتے ہوئے محدود طبی سہولیات تک رسائی ہے۔ میشائیل انتھونی جرمن انشورنس کمپنی آلیانز اس کی تعریف کچھ یوں کرتے ہیں: ’’ایک شخص جس کی آمدنی دو ڈالر یومیہ تک محدود ہو، عمومی طور پر میڈیکل انشورنس سروس کے حصول میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔ ہیلتھ انشورنس کی دنیا میں کم آمدنی والے صارف کی جگہ بن نہیں پاتی۔‘‘

دوسرے انشورنس نظاموں کی طرح مائیکرو ہیلتھ انشورنس کو بھی زیادہ تعداد میں صارفین کی ضرورت پڑتی ہے تا کہ اخراجاتی رسک کو کم سے کم ہو۔

جنوبی بھارت کے شہر بنگلور کے پبلک ہیلتھ انسٹیٹیوٹ سے وابستہ شری لکشمی دیواکر مائیکرو ہیلتھ انشورنس کی ضرورت سے متعلق کہتے ہیں : ’’ہم بڑی تعداد میں صارفین کے متلاشی ہیں۔ اس سے ہر شخص پر پریمیم کی رقم کا بوجھ کم ہو پائے گا۔ زیادہ لوگوں کے باعث یہ بوجھ تقسیم ہوتا چلا جائے گا۔‘‘

مائیکرو ہیلتھ انشورنس کے مختلف طریقے ہیں۔ پارٹنر ایجنٹ ماڈل کا طریقہ ان میں سے ایک ہے۔ اس طریقے میں کوئی غیر سرکاری تنظیم یا این جی او کسی بڑی ہیلتھ انشورنس کمپنی کے ساتھ مل کر کام کرتی ہے۔ اس میں این جی اوکا کردار کسی ایجنٹ کا سا ہوتا ہے۔ یعنی وہ عوام میں اس انشورنس کو مشتہر کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے اور لوگوں سے پریمیم کی رقم وصول کرکے انشورنس کمپنی کے حوالے کرتی ہے۔ اس طریقے میں انشورنس کمپنی براہ راست عوام کے سامنے آنے کی بجائے ایک خاموش شراکت دار ہوتی ہے۔

Trauernde Christin
اخراجاتی رسک کو خم کرنے کے لئے زیادہ صارفین کی ضرورت پڑتی ہےتصویر: AP

اس طرح ہر خاندان کو سالانہ دو سے پانچ ڈالر کے مساوی رقم بطور پریمیم ادا کرنا ہوتی ہے۔ گو کہ اس سے انشورنس کمپنی کوئی بہت بڑا منافع نہیں کما سکتی تاہم آلایانز کمنی کے میشائیل انتھونی دو برسوں میں جنبوی بھارت میں دس ہزار افراد کے مائیکرو انشورنس سے وابستہ ہونے پر خاصے مطمئن ہیں:’’ظاہر ہے اس میں منافع کی شرح کمپنی کو دیگر تجارتی جہتوں میں حاصل ہونے والے منافع سے خاصی کم ہے تاہم ہمیشہ ایسا نہیں رہے گا۔ آگے چل کر اس میں خود بخود بہتری آئے گی۔ جب کوئی صارف غربت کی لکیر سے جہاں پر وہ اس وقت موجود ہے اوپر چلا جائے گا اور اسی معاشی صورتحال بہتر ہو گی تو جو کمپنی انہیں انشور کرے گی، وقت کے ساتھ ساتھ اسے بھی اس کا فائدہ ہوتا چلا جائے گا۔‘‘

شری لکشمی دیواکار آلیانز اور اس جیسی دیگر پرائیویٹ انشورنس کمپنیوں کی بجائے کمیونٹی کی بنیاد پر کام کرنے والے پبلک انشورنس انسٹیٹیوٹ کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں:’’کمیونٹی ہیلتھ انشورنس میں ہم منافع کی بات نہیں کرتے۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ اجتماعی طور پر اکٹھا کیا جائے گا اور اسے اجتماعی طور پر تقسیم بھی کر دیا جائے گا۔ اس طرح یہ مکمل سلسلہ بن جاتا ہے۔‘‘

دیواکار کے مطابق کمیونٹی بیس ہیلتھ انشورنس دراصل ممبران کی بنیاد پر کام کرتی ہے۔ اس طرح یہ خودکار طریقے سے رسک اور فائدے دونوں کو برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے: ’’پہلی بات تو یہ ہے کہ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ یہ آسان ہے۔ کمیونٹی ہیلتھ سروس ہر آدمی کو آسانی سے مہیا کی جا سکتی ہے۔ لوگون کو آسانی سے سمجھ آ جاتا ہے کہ انہیں کیا دینا ہے اوراس کے بدلے انہیں کیا ملے گا اور انہیں پریمیم کس طرح ادا کرنا ہے۔ اور انہیں فائدہ کس طرح اس تمام سلسلے سے فائدہ اٹھانا ہے۔‘‘

رپورٹ: عاطف توقیر

ادارت: امجد علی