1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت میں پے در پے جنسی زیادتی کے واقعات، وجہ کیا ہے؟

مرلی کرشنن، نئی دہلی ⁄ شامل شمس1 اگست 2016

بھارت میں متعدد گینگ ریپ کے واقعات کے سامنے آنے کے بعد یہ تلخ حقیقت واضح ہو رہی ہے کہ حکومت کی جانب سے اصلاحات کے باوجود خواتین کے خلاف جرائم میں کمی نہیں آ رہی۔

https://p.dw.com/p/1JZm1
تصویر: picture-alliance/AP Photo/R. Maqbool

ہفتے کے روز ریاست اتر پردیش میں ایک خاتون اور اس کی بیٹی کو گھر کے مردوں کے سامنے ہی اجتماعی جنسی زیادتی کا شکار بنایا گیا۔ یہ افراد ایک گاڑی پر سوار تھے جب انہیں نئی دہلی کے باہر روک کر یہ کارروائی کی گئی۔

والدہ کی عمر پینتیس برس اور بیٹی کی چودہ سال تھی۔ ان سات یا آٹھ افراد نے گاڑی سے باہر نکالا، مردوں کو رسیوں سے باندھا اور خواتین کو ریپ کیا۔

پولیس کے مطابق اس نے پندرہ افراد کو ان خواتین کو ریپ کرنے کے الزام میں گرفتار کیا ہے۔ معاملے کی گونج پیر کے روز ملکی پارلیمنٹ میں بھی سنائی دی۔

بھارت میں اس واقعے پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا گیا ہے۔ تاہم یہ غصہ صرف تازہ ترین واقعے پر نہیں بلکہ بھارت میں تواتر کے ساتھ ہونے والے جنسی زیادتی کے واقعات پر ہے۔

گزشتہ ہفتے ریاست راجھستان میں ایک خاتون کو مبینہ طور ریپ کیا گیا اور اسے پیشاب پینے پر مجبور کیا گیا۔ ساتھ ہی اس کی بیٹی کو بھی بیس سسرال والوں کے سامنے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔

چند روز قبل ایک شادی شدہ خاتون کو آگرہ کے فیروز آباد ضلع میں ایک رکشہ ڈرائیور نے ریپ کیا تھا۔

اس صورت حال کے بارے میں انسانی حقوق کی کارکن موہوا چوہدری نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا، ’’یہ واضح ہے کہ جنسی زیادتی کے واقعات خواتین کو بھارتی معاشرے میں پس پشت لگانے کا نتیجہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ واقعات تواتر کے ساتھ ہو رہے ہیں۔‘‘

بھارت کے نیشنل کرائمز ریکارڈ بیورو کے اعداد و شمار کے مطابق دلت ذات سے تعلق رکھنے والی چار خواتین روزانہ ریپ ہوتی ہیں۔

دلت برداری سے تعلق رکھنے والی حقوق انسانی کی کارکن روتھ منوراما نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جو صورت حال سے اس وقت بھارتی معاشرہ دوچار ہے وہ ایک ’’سیاہ دھبے‘‘ کے مترادف ہے۔

سن دو ہزار تیرہ میں ایک چلتی بس پر ایک طلبہ کو گینگ ریپ کا نشانہ بنانے کے واقعے نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ بین الاقوامی سطح پر بھی اس کی شدید مذمت کی گئی تھی۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید