1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

210611 Indien Windenergie

29 جون 2011

بھارت ہوا سے بجلی حاصل کرنے والا دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے، جہاں اب تک نصب کی جانے والی پون چکیاں 13 ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ تاہم پون چکیوں کے نئے منصوبوں کے خلاف مزاحمت بھی ہو رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/11lXq
تصویر: R. Hörig/DW

بھارت اپنی توانائی کی بڑھتی ہوئی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ متبادل ذرائع سے استفادہ کر رہا ہے اور ہوا، سورج، پانی اور حیاتیاتی انبار سے بھی توانائی کے حصول کے منصوبے شروع کیے ہوئے ہے۔ تاہم پون چکیاں زیادہ تر مقامی آبادی کی رضامندی حاصل کیے بغیر اور یہ جانچے بغیر تعمیر کی جاتی ہیں کہ کہیں اُن سے ماحول کو کوئی نقصان تو نہیں پہنچے گا۔

بھارتی شہر ممبئی سے تقریباً ایک سو کلومیٹر کے فاصلے پر پہاڑی جنگلات میں گھرا گاؤں کرپُوڈ سطح سمندر سے تقریباً ایک ہزار میٹر کی بلندی پر واقع ہے۔ اس گاؤں کے زیادہ تر باسی مہا دیو کوہلی کہلاتے ہیں اور اس علاقے کے قدیم مقامی باشندوں کی نسل سے ہیں۔ گاؤں کی بزرگ ترین ہستی گنپت مداگے نے مراٹھی زبان میں بتایا کہ جنگل اُن کے قبیلے کی بقا کا ضامن ہے:’’ہماری عورتیں روز لکڑیاں چننے کے لیے جنگل میں جاتی ہیں۔ وہاں ہمیں جڑی بوٹیاں، جنگلی پھل اور شہد بھی ملتا ہے، جو ہم خود بھی استعمال کرتے ہیں اور فروخت بھی کرتے ہیں۔‘‘

مغربی بھارت میں نصب پون چکیاں
مغربی بھارت میں نصب پون چکیاںتصویر: R. Hörig/DW

تاہم گاؤں سے کچھ دور گھنے جنگل کے بیچوں بیچ ایک نئے اور کچے راستے پر بھاری ٹرک اور تعمیراتی مشینیں آتی جاتی نظر آتی ہیں۔ اس راستے کے آس پاس دور دور تک کوئی سبزہ نظر نہیں آتا۔ گنپت مداگے بتاتے ہیں:’’یہاں درختوں سے ڈھکے پہاڑ پر ایک پون چکی تعمیر کی جا رہی ہے۔ جب سے یہ کام شروع ہوا ہے، ہم میں سے کسی کو جنگل میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے۔ تعمیراتی کمپنی کے چوکیدار ہمیں اندر داخل نہیں ہونے دیتے۔ تعمیر کا کام شروع ہونے کے بعد سے اب تک کئی ہزار درخت کاٹے جا چکے ہیں۔‘‘

اینرکون انڈیا نامی کمپنی اس پورے علاقے میں ہوا سے چلنے والی مجموعی طور پر 142 چکیاں تعمیر کر رہی ہے، جن کی پیداواری صلاحیت 113 میگا واٹ ہو گی۔ محکمہء جنگلات نے محفوظ قرار دیے جانے والے جنگلات میں سے اس مقصد کے لیے 194 ہیکٹر جنگلاتی رقبہ فراہم کیا ہے۔

اِس علاقے کے باسیوں کو نہ تو اس تعمیراتی منصوبے سے آگاہ کیا گیا تھا اور نہ ہی اُنہیں اُن کے پھل دار درختوں اور زرعی زمین کے نقصان کی تلافی کے لیے کوئی معاوضہ ادا کیا جا رہا ہے۔ آس پاس کے دیہات کے لوگ ان تعمیراتی منصوبوں کے خلاف احتجاج تو کر رہے ہیں لیکن ان پڑھ ہونے کی وجہ سے اور اپنے حقوق سے مکمل طور پر آگاہ نہ ہونے کے باعث اُن کا احتجاج مؤثر ثابت نہیں ہو رہا۔ اس احتجاج کو منظم کرنے میں ایک مقامی صحافی اتُل کالے نے بنیادی کردار ادا کیا ہے۔

بھارت میں پون چکیوں کی وجہ سے جنگلات کی تباہی کا ایک منظر
بھارت میں پون چکیوں کی وجہ سے جنگلات کی تباہی کا ایک منظرتصویر: R. Hörig/DW

وہ بتاتے ہیں:’’مقامی آبادی شروع ہی سے اس منصوبے کے خلاف تھی۔ محکمہ جنگلات والے ان لوگوں کو تو ایک بھی درخت نہیں کاٹنے دیتے جبکہ پون چکی تعمیر کرنے والی کمپنی نے اکٹھے لاکھوں درخت کاٹ دیے ہیں۔ لوگ غصے میں ہیں کہ جو جنگل اُن کی بقا کا ضامن تھا، اسے ایک ایسے منصوبے کے لیے کاٹا جا رہا ہے، جس کا خود اُنہیں کوئی فائدہ نہیں ہے۔‘‘

اِس صحافی کا کہنا ہے کہ تعمیراتی کمپنی اینرکون انڈیا، دھمکیوں اور رشوت کے ذریعے لوگوں کی آواز کو دبانے کی کوشش کر رہی ہے اور یہ کہ یہ کمپنی کئی مقامی سرکاری افسران کی وفاداریاں بھی خرید چکی ہے ورنہ اُس کے خیال میں یہ کیسے ممکن ہے کہ گزشتہ سال دسمبر میں عدالت کی طرف سے حکم امتناعی جاری ہونے کے باوجود تعمیراتی کام روکا نہیں گیا بلکہ بدستور جاری ہے۔

رپورٹ: امجد علی

ادارت: افسر اعوان

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں