1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت: وسیم رضوی کی قرآنی آیات حذف کرنے کی درخواست خارج

صلاح الدین زین نئی دہلی
12 اپریل 2021

بھارتی سپریم کورٹ نے قرآن سے آیات حذف کرنے سے متعلق شیعہ بورڈ کے سابق چیئرمین وسیم رضوی کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے عرضی گزار پر جرمانہ بھی عائد کیا ہے۔ 

https://p.dw.com/p/3rrYV
Malaysia Kuala Lumpur | Frau mit Koran
تصویر: picture-alliance/Godong/F. de Noyelle

بھارت کی سپریم کورٹ نے اس عرضی کو پوری طرح سے خارج کر دیا ہے، جس میں مسلمانوں کی مقدس ترین کتاب قرآن سے چھبیس آیات کو حذف کرنے کی درخواست کی گئی تھی۔ گزشتہ ماہ شیعہ بورڈ کے سابق چیئرمین وسیم رضوی نے اس حوالے سے سپریم کورٹ میں مفاد عامہ کی ایک عرضی داخل کی تھی۔

جسٹس آر ایس ناریمن کی قیادت والی بینچ نے سماعت کے دوران اسے، "قطعی طور پر فضول اور بیہودہ پٹیشن قرار دیتے ہوئے"، عرضی گزار پر پچاس ہزار روپے کا جرمانہ بھی عائد کیا ہے۔

جب درخواست بینچ کے سامنے آئی تو جسٹس ناریمن نے وکیل سے پوچھا، "کیا آپ واقعی سنحیدہ ہیں؟ کیا آپ اس پر زور دے رہے ہیں؟

وسیم رضوی کی اس درخواست کی پیروی کرنے والے سینیئر وکیل آر کے رائے زائدہ نے اس پر کہا کہ وہ اس کو مدرسہ بورڈ  تک محدود رکھنا چاہتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا، "اس کی مدد سے مدرسہ کے طلبہ کو  کم عمری میں کافروں کے خلاف تشدد کی تعلیم دی جاتی ہے۔ اس طرح کی تعلیم کی اجازت نہیں ہونی چاہیے اور بازار میں اس طرح کا مواد بھی دستیاب نہیں ہونا چاہیے۔ مرکزی حکومت اور مدرسہ بورڈ کو اس بات کی ہدایات دینے کی ضرورت ہے کہ وہ ان آیات کی تعلیم دینا روک دیں۔" 

Malaysia Kuala Lumpur  Royal Koran im Museum
تصویر: picture-alliance/Godong/F. de Noyelle

لیکن سپریم کورٹ کی بینچ ان دلائل سے قطعی متاثر نہیں ہوئی اور نہ ہی اس پر مزید سماعت کے لیے تیار ہوئی۔ عدالت نے اس درخواست کو مسترد کرتے ہوئے وسیم رضوی پر پچاس ہزار روپے کا جرمانہ عائد کر دیا۔

لکھنؤ کے رہائشی اور اتر پردیش شیعہ وقف بورڈ کے سابق چیئرمین وسیم رضوی نے گيارہ مارچ کو سپریم کورٹ میں ایک درخواست میں مطاکبہ کیا تھا کہ قرآن کی ان چھبیس آیات کو اس مقدس کتاب سے نکال دیا جائے، جو ان کے بقول 'دہشت گردی کے فروغ میں معاون‘ ہوتی ثابت ہوتی ہیں۔

 انہوں نے اس کیس میں کئی درجن مسلم سیاسی، سماجی اور مذہبی جماعتوں، یونیورسٹیوں اور کالجوں کے علاوہ تقریباً ایک درجن حکومتی وزارتوں، سرکاری محکموں اور اداروں کو فریق بھی بنایا تھا۔

اس کے خلاف بھارت کے مختلف حصوں میں مظاہرے بھی ہوئے اور  کئی مقامات پر وسیم رضوی کے خلاف پولیس میں کیس بھی درج کرائے جا چکے ہیں۔ شیعہ مذہبی تنظیموں نے انہیں دائرہ اسلام سے خارج بتایا جبکہ ان کے قریبی رشتہ داروں نے ان سے پوری طرح کنارہ کشی اختیار کرنے کا اعلان کیا تھا۔ کچھ لوگوں نے تو اپنے طور پر ان کے سر کی قیمت بھی لگا دی تھی۔

دوسری طرف ہندوؤں کا ایک طبقہ وسیم رضوی کی حمایت میں آگے آ  گیا تھا۔ سخت گير ہندو نظریات کے حامی سوشل میڈیا پر ان کی زبردست حمایت کرتے رہے ہیں اور انہیں 'سب سے بڑا دیش بھگت‘ قرار دیا جاتا رہا ہے۔

بھارت میں بعض حلقوں کا کہنا ہے  کہ وسیم رضوی کی طرف سے دائر کردہ درخواست ایک بڑی سازش تھی اور انہیں اس کے لیے آلہ کار بنایا گیا ہے۔ مبصرین کے بقول اس کا ایک مقصد یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کوئی نیا تنازعہ کھڑا ہو جائے اور عوام کی توجہ کسانوں کی تحریک سے اور مہنگائی کی طرف سے ہٹ جائے۔

پرانے اور خستہ قرآنی اوراق کی تدفین

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں