1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت پاک خارجہ سیکرٹری مذاکرات غیر یقینی

جاوید اختر، نئی دہلی12 جنوری 2016

بھارت اور پاکستان کے خارجہ سیکرٹریوں کے درمیان جمعہ پندرہ جنوری کو اسلام آباد میں ہونے والی مجوزہ میٹنگ غیر یقینی کیفیت سے دوچار ہوگئی ہے لیکن پٹھان کوٹ کے حوالے سے بھارت کو پاکستانی تعاون کے’مثبت اشارے‘ ملے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1HbmG
Flagge Pakistan und Indien
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Sharma

گوکہ بھارتی حکومت نے بھارت پاک خارجہ سیکرٹریوں کی مجوزہ میٹنگ کو ملتوی یا منسوخ کرنے کا ابھی تک باضابطہ اعلان نہیں کیا تاہم کل بدھ کے روز سرکاری طور پر اس سلسلے میں کوئی اعلان متوقع ہے۔ ایک ہندی روزنامہ میں بھارتی قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال کے شائع ہونے والے انٹرویو نے پہلے ہی صورت حال بڑی حد تک واضح کردی ہے، جس میں ڈوبھال نے کہا ہے،’’جب تک پاکستان پٹھان کوٹ حملے کے قصورواروں کے خلاف کارروائی نہیں کرتا اور بھارت پاکستان کی کارروائی سے مطمئن نہیں ہوتا، اس وقت تک دونوں ملکوں کے درمیان کوئی امن مذاکرات نہیں ہوں گے اور بھارت دونوں ملکوں کے خارجہ سیکرٹریوں کی پندرہ جنوری کو ہونے والی بات چیت منسوخ کر رہا ہے۔‘‘ تاہم اس انٹرویو کی اشاعت کے بعد جب ہنگامہ مچا تو ڈوبھال نے اس طرح کے کسی انٹرویو کی سرے سے ہی تردید کردی۔

دراصل پٹھان کوٹ حملے کے بعد سے نریندر مودی حکومت پر خود پارٹی کے اندر سے اور حکومتی حلیفوں کی طرف سے بھی کافی دباؤ ہے کہ وہ کم از کم مذاکرات کو ملتوی کر کے پاکستان کے ساتھ اپنی ناراضی کا مظاہرہ کرے۔ واضح رہے کہ گزشتہ دسمبر میں جب بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج پاکستان گئی تھیں تب دونوں ملکوں کے خارجہ سیکرٹریوں کے درمیان بات چیت پر رضامندی ہوئی تھی۔ اس کے بعد پچیس دسمبر کو پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کی سالگرہ پر وزیر اعظم مودی کے لاہور پہنچ کر مبارک باد دینے کے غیر معمولی واقعے کے بعد دونوں ملکوں کے مابین تعلقات کی بحالی کے امکانات روشن ہوگئے تھے۔

تاہم بعدازاں دو جنوری کو پٹھان کوٹ ایئر بیس پر ہونے والے حملے کے بعد صورت حال یکسر بدل گئی ہے۔ بھارتی حکومت میں پاکستان کے ساتھ بات چیت کے حوالے سے دو موقف پائے جاتے ہیں۔ ایک گروپ کا کہنا ہے کہ پٹھان کوٹ حملے کے بعد بات چیت کی کوئی گنجائش نہیں رہ گئی، اس لئے بات چیت کو منسوخ کر دیا جانا چاہیے تاہم دوسرے طبقے کا خیال ہے کہ ایسا کرنا مبینہ جہادی عناصر کے لئے میدان ہموار کرنے کے مترادف ہوگا، جو بھارت اور پاکستان کے درمیان امن کی کسی بھی کوشش کی راہ میں ہمیشہ رکاوٹیں ڈالتے رہتے ہیں۔

بھارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ بات چیت ختم کر دینا مسئلے کا حل نہیں ہے تاہم پاکستان نے پٹھان کوٹ حملے کے قصورواروں کے خلاف اب تک جو کارروائی کی ہے اس کی رپورٹ موصول ہونے کے بعد اور تفتیش کی نوعیت کا تجزیہ کرنے کے بعد اگر بھارت اس سے مطمئن ہوتا ہے،تب ہی بات چیت آگے بڑھائی جائے گی۔ ذرائع کا مزید کہنا ہے کہ بھارت کو امید ہے کہ پاکستان سنجیدہ اور ٹھوس کارروائی کرے گا۔

Pakistan Indischer Ministerpräsident Narendra Modi zu Besuch in Lahore
ذرائع تسلیم کرتے ہیں کہ پاکستان کی اب تک کی کارروائی سے مثبت اشارے ملے ہیںتصویر: picture-alliance/dpa/Press Information Bureau

پاکستان کی اس بیان پر کہ اسے خاطر خواہ ثبوت مہیا نہیں کیے گئے، بھارتی حکام کا کہنا ہے کہ ابھی تفیش ابتدائی مراحل میں ہے اور جب تفتیش آگے بڑھے گی تو مزید ثبوت فراہم کئے جائیں گے۔ لیکن اب تک جو ثبوت فراہم کئے گئے ہیں امید ہے کہ پاکستان ان کی بنیاد پر کیس تیار کرے گا اور معاملے کی تفتیش کرے گا۔ بھارتی حکام کے مطابق ’’اس حملے کے ماسٹر مائنڈ پاکستان میں ہیں اس لیے پاکستان بہتر طریقے سے تفتیش کرنے کی پوزیشن میں ہے۔‘‘ بہر حال ذرائع تسلیم کرتے ہیں کہ پاکستان کی اب تک کی کارروائی سے مثبت اشارے ملے ہیں۔

اس دوران وزیر خارجہ سشما سوراج نے وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ کے ساتھ پٹھان کوٹ حملے کے بعد پیدا شدہ صورت حال پر تفصیلی بات چیت کی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ بیس منٹ کی بات چیت میں پاک بھارت خارجہ سیکرٹریوں کی مجوزہ میٹنگ کے سلسلے میں تبادلہ خیال کیا گیا۔ قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال نے بھی وزیر داخلہ سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی اور پٹھان کوٹ حملے کے بعد سلامتی کی صورت حال پر تبادلہ خیال کیا۔
دریں اثناء اپوزیشن کانگریس نے خارجہ سیکرٹری سطح کی بات چیت کی غیریقینی پر حکومت کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ ملک کی خارجہ پالیسی اس طرح نہیں چلائی جاتی۔