1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت کا یوم آزادی : ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات

15 اگست 2008

گزشتہ روز چودہ اگست کو پاکستان کا یوم آزادی منایا گیا اور آج بھارت کا یوم آزادی ہے۔

https://p.dw.com/p/ExaG
مشہور بھارتی گلوکار دلیر موندی پاکستان اور بھارت کا جھنڈا تھامے ہوئے۔تصویر: AP

دونوں ملک یعنی پاکستان اور بھارت حقیقت میں چودہ اور پندرہ اگست کی درمیانی شب معرضِ وجود میں آئے۔ اکسٹھ سال قبل دو نئے آزاد ملکوں نے اپنا اپنا سفر شروع کیا تھا۔ آج دونوں ملکوں کی مجموعی صورت حال میں تفاوت دکھائی دیتا ہے۔ پاکستان کی حکومت اول دِن سے غریب اور بھارتی حکومت شروع سے آسُودہ حال دکھائی دیتی ہے۔ یہ درست ہے کہ پاکستان کے لوگ قدرے زیادہ خوش حال دکھائی دیتے ہیں بمقابلہ بھارت کی کثیر آبادی کے جہاں بڑے شہروں پر فٹ پاتھ پر چوتھی نسل جوان ہونے لگی ہے۔

پاکستان اپنے اندرونی معاملات کو ختم کرنے میں کامیاب نہ ہوا اور سقوط ڈھاکہ کے بعد بر صغیر پاک و ہند کے نقشے پر ایک اور ملک وجود میں آیا اور یہ بنگلہ دیش تھا۔ یوں اُنیس سو سینتالیس کو شروع ہونے والی تاریخ میں ایک نئی گرہ لگی۔

بھارت اپنے اکسٹھویں یوم آزادی پر کئی پہلووں سے فخر کر سکتا ہے۔ آج بھارت دنیا میں ایک بہت بڑی اقتصادی قوت کے طور پر عالمی سطح پر تسلیم کیا جانے لگا ہے۔ کئی بڑی بڑی عالمی کمپنیاں بھارت میں سرمایہ کاری کرنے میں خوشی محسوس کرتی ہیں۔

بھارت اگر ایک طرف افتصادی طور پر مستحکم اشارے دے رہا ہے تو دوسری طرف وہاں پر بڑھتی افراطِ زر کی وجہ سے مہنگائی میں ہوش ربا اضافہ غریب کو غریب تر اور متوسط طبقے کو غریبی کی دہلیز سے پرے دھکیلنے میں مصروف ہے۔ جب کہ اِس کا فائدہ صرف اور صرف امیر اور دولتمند طبقے کو حاصل ہو رہا ہے۔ جس کے بینک اکاؤنٹ کا حجم مسلسل وسیع سے وسیع تر ہوتا جا رہا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ یہ صورت حال ملک کے اتحاد کی بنیادوں کو کمزور کر سکتی ہے۔ اِس فرق سے خودکشیاں اور جرائم کی سطح بھی خاصی اہم ہے۔

بھارت اور پاکستان ہمسایہ ملک ہیں۔ بھارتی ترقی میں سن اُنیس سو سینتالیس کی بھارتی سیاسی قیادت کا بڑا ہاتھ قرار دیا جا سکتا ہے۔ اُس وقت پنڈت جواہر لعل نہرو، سردار ولبھ بھائی پٹیل سمیت کئی نامی گرامی لیڈران موجود تھے۔ پاکستان میں ایک محمد علی جناح تھے جو تنہا تھے اور اُن کے پیچھے قیادت کا فقدان تھاے حالانہ لیاقت علی خان سمیت کئی اور نام لئے جا سکتے ہیں مگر کمزور سیاسی بصیرت کی وجہ سے وہ پاکستان کو توانا ادارے فراہم کرنے میں ناکام رہے۔ ایسے میں پاکستانی فوج کی سیاسی دلچسپی نے رہی سہی کسر ختم کرڈالی۔

Jawaharlal Nehru, indischer Premierminister 1961, Kalenderblatt
بھارت کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرُوتصویر: AP

تجزیہ تگاروں کا خیال ہے کہ آج کا بھارت اندرونِ خانہ کئی مسائل کا سامنا کر رہا ہے جس میں وسطی اور مشرقی ریاستوں میں ماؤنواز علیحدگی پسندوں کی مسلح تحریک اور پھر جموں وکشمیر میں سکیورٹی کی ابتر صورت حال کی وجہ سے بھارت کےاقتصادی خواب کسی طور روشن تعبیر حاصل کرنے سے قاصر دکھائی دیتے ہیں۔ ایسے میں مسلمانوں اور دوسری اقلیتوں کو جس انداز میں مرکزی دھارے سے پرے دھکیلنے کی خاموش پالیسی جاری ہے وہ بھی بھارتی آدرشوں کی راہ میں حائل ہے۔ بھارت کے سیاسی کینوس کے سارے رنگوں کو جانے والے سمجھتے ہیں کہ یہ وہ گھمبیر مسائل ہیں جو پائیدار بھارتی ترقی کے راستے کی بڑی رکاوٹیں ہیں کیونکہ اِن کی وجہ سے بھارتی سوسائٹی کا مزاج برداشت کا نہیں ہے جو مغربی ترقی یافتہ معاشروں کا طُرہٴ امتیاز سمجھا جاتا ہے۔

بھارت میں اقتصادیات پنپ رہی ہیں، جمالیاتی فنون کی نشو نما ہو رہی ہے۔ درسگاہیں طلبا سے بھرتی جا رہی ہیں لیکن پھر بھی پانی کہیں نہ کہیں مرتا جا رہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بھارتی معاشرے میں اقتصادی ترقی کے مکمل ثمرات سے قبل ہی برپا ہوالا نیلا انقلاب یا Blue Revolution بھی اندرونِ خانہ کئی خرابیوں کا باعث ہے۔

بھارتی دارالحکومت میں وزیر اعظم من موہن سنگن لال قلعے پر جھنڈا لہرائیں گے اور اکیس توپوں کی سلامی دی جائے گی ایسے میں بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر کے ایک لیڈر کا کہنا ہے کہ بھارتی یوم آزادی پر ستائیس معصوم انسانوں کے خون نے یوم آزادی کے چہرے پر کالک مل دی ہے جس سے بھارتی سیکولرزم کا روپ اور سیاہ ہو گیا ہے۔