1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت: ہاتھوں سے انسانی فضلہ اٹھانے کا چلن آج بھی برقرار

جاوید اختر، نئی دہلی
3 دسمبر 2021

بھارت میں انسانی غلاظت ہاتھوں سے صاف کرنے پر سن 2013 سے ہی قانوناً پابندی عائدہے تاہم بڑی تعداد میں لوگ اب بھی یہ "غیرانسانی" کام کر رہے ہیں۔ اس کام میں 97 فیصد افراد 'نچلی ذات کے سمجھے جانے والے' دلت ہندو ہیں۔

https://p.dw.com/p/43mLs
Müllfrauen in Indien
تصویر: Prakash Singh/AFP/Getty Images

بھارت کی وزارت برائے سماجی انصاف نے پارلیمان کو بتایا کہ گوکہ ملک میں انسانی فضلہ ہاتھوں سے صاف کرنے کا کام غیر قانونی ہے تاہم تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق 58 ہزار افراد یہ کام کر رہے ہیں اور اس میں 97 فیصد افراد 'نچلی ذات کے سمجھے جانے والے' دلت ہندو ہیں۔

اپوزیشن جماعت راشٹریہ جنتا دل کے رکن پارلیمان منوج جھا نے سماجی انصاف کی وزارت سے سوال پوچھا تھا کہ انسانی فضلہ ہاتھوں سے صاف کرنے والے افراد کی ذات پر مبنی تعداد کیا ہے؟ اس روایت کو پوری طرح ختم کرنے کے لیے حکومت نے کیا اقدامات کیے ہیں؟ اور ان کی بہبود کے لیے کیا منصوبے بنائے گئے ہیں؟

مودی حکومت نے اس سوال کے جواب میں پارلیمان کو بتایا کہ سن 2013 کے ایک قانون کے تحت انسانی فضلہ ہاتھوں سے اٹھانا قانوناً ممنوع ہے اس کے باوجود وزارت برائے سماجی انصاف کی طرف سے کرائے گئے ایک سروے کے مطابق ملک میں اب بھی 58 ہزار 98 افراد یہ کام کر رہے ہیں۔

Müllfrauen in Indien
تصویر: Prakash Singh/AFP/Getty Images

ہاتھوں سے انسانی فضلہ اٹھانے والوں میں 97 فیصد دلت

حکومت نے یہ بھی بتایا کہ ہاتھوں سے انسانی فضلہ اٹھانے والوں کی ذات کی بنیاد پر شناخت کا کوئی قانون نہیں ہے تاہم قانون کے بعض التزامات کے تحت ان کی شناخت کے لیے سروے کرائے گئے۔

 جن 58 ہزار سے زائد افراد کی ہاتھوں سے انسانی فضلہ اٹھانے والوں کے طورپر شناخت ہوئی ہے ان میں سے صرف 43 ہزار 797 افراد کی ذات کی بنیاد پر اعداد و شمار دستیاب ہے۔ ان میں 42 ہزار 594 یعنی97 فیصد سے بھی زیادہ دلت ہیں۔ 421 افراد قبائلی ہیں، 431 کا تعلق دیگر پسماندہ طبقات سے ہے جب کہ 351 دیگر ذاتوں سے تعلق رکھتے ہیں۔

ہاتھوں سے انسانی فضلہ اٹھانے والے افراد کی بہبود کے لیے کام کرنے والی تنظیمیں ایک عرصے سے یہ کہتی رہی ہیں کہ یہ کام 'نچلی ذات کے سمجھے جانے والے' دلت ہندووں سے ہی کرایا جاتاہے۔ تازہ سرکاری اعداد و شمار بھی اس کی تصدیق کرتے ہیں۔

مودی حکومت نے اپنے جواب میں کہا ہے کہ انسانی فضلہ ہاتھوں سے اٹھانے والوں کے لیے آمدنی کے متبادل فراہم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس کے تحت ایک خاندان کے ایک فرد کو چالیس ہزار روپے کی ایک بار امدادی رقم دی جاتی ہے۔

اس کے علاوہ ایسے افراد کو دو سال کی ووکیشنل ٹریننگ بھی دی جا رہی ہے۔ اس دوران ہرماہ تین ہزار روپے کا وظیفہ دیا جاتا ہے۔ تاہم سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اب تک صرف 18ہزار لوگو ں کو ہی تربیت دی گئی ہے۔ حکومت ایسے افراد کو خود روزگار اسکیم کے تحت پانچ لاکھ روپے تک کا قرض دیتی ہے۔ حکومت کے مطابق اب تک صرف 1562 لوگوں کو قرض دیا گيا ہے۔

غیر سرکاری تنظیموں کا دعویٰ

گوکہ حکومت نے ملک میں ہاتھوں سے انسانی فضلہ اٹھانے والوں کی تعداد صرف 58 ہزار کے قریب بتائی ہے تاہم غیر سرکاری تنظیم صفائی کرمچاری آندولن کا کہنا ہے کہ بھارت میں اب بھی 26 لاکھ' ڈرائی لیٹرین' ہیں جن کی صفائی کوئی نہ کوئی شخص کرتا ہی ہے۔ اس کے علاوہ 36 ہزار سے زائد افراد ریلوے اسٹیشن پر ریلوے کی پٹریوں پر گرنے والے انسانی فضلات صاف کرتے ہیں۔

اس تنظیم کا کہنا ہے کہ 7.7 لاکھ لوگ سیوروں کی صفائی کا کام ہاتھوں سے کرتے ہیں۔ نالوں میں زہریلی گیسوں کی وجہ سے صفائی ملازمین کی موت کی خبریں اکثر آتی رہتی ہیں۔ صفائی کرمچاری آندولن کے مطابق اب تک ایسی 1760اموات ہوچکی ہیں۔ حالانکہ حکومت صرف 941 لوگوں کی ہلاکت کو تسلیم کرتی ہے۔

Indien I Jantar Mantar I Kanalisation
تصویر: Indraneel Chowdhury/Pacific Press/picture-alliance

انسانی غلاظت نہ اٹھانے پر زیادتی

 عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی سن 2019 کی ایک رپورٹ بتاتی ہے کہ قانون کے نفاذ کے فقدان اور کمزور قانونی تحفظ نیز صفائی مزدوروں کی خراب مالی حالت کی وجہ سے بھارت میں ہاتھوں سے غلاظت کی صفائی کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔

ورلڈ بینک، ڈبلیو ایچ او، انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن(آئی ایل او) اور واٹر ایڈ کی طرف سے مشترکہ طورپر کرائی گئی ایک تحقیق کے مطابق صفائی کرنے والے ان مزدوروں کو بہت معمولی اجرت ملتی ہے اور وہ بھی مستقل نہیں۔ تحقیقات میں پایا گیا کہ کئی مرتبہ تو ان مزدوروں کو پیسے بھی نہیں دیے گئے اور اس کے بدلے میں انہیں بچا کھچا کھانا یا دیگر خوردنی اشیاء لینے پر مجبور کیا گیا۔

حقوق انسانی کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کی ایک رپورٹ کے مطابق جولوگ غلاظت اٹھانے کا کام کرنے سے منع کرتے ہیں انہیں اعلیٰ ذات کے لوگوں کی طرف سے دھمکی اور زیادتی کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اترپردیش میں ایک مزدور نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا،''کوئی بھی اپنی مرضی سے یہ کام کرنا پسند نہیں کرتا ہے۔ ہم اس پیشے میں پھنس گئے ہیں لیکن ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے بہتر زندگی گزاریں۔ اس سماجی لعنت کی وجہ سے ہمیں اور ہمارے خاندان کو بہت نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔''

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں