1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھوک، ایک پلیٹ سالن مٹاتی ہے یا تعلیم اور روزگار؟

10 اکتوبر 2019

ہیں وہی لوگ اچھے جہاں میں، آتے ہیں جو کام دوسروں کے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ دوسروں کا خیال کیسے رکھا جائے؟ ان کو روز مچھلی کھلائی جائے یا انہیں مچھلی پکڑنا سکھایا جائے؟ عصمت جبیں کا بلاگ

https://p.dw.com/p/3R1qu
Ismat Jabeen DW Korrespondentin
تصویر: DW

فلاحی ریاست اسے کہتے ہیں جس میں نہ کوئی بھوکا سوئے اور نہ ہی کسی کو علاج معالجے کی کوئی پریشانی ہو اور تعلیم سمیت زندگی کی ساری سہولیات مفت میسر ہوں۔ وزیر اعظم عمران خان سمجھتے ہیں کہ پاکستان ایک فلاحی ریاست ہے تو کیوں نہ فلاحی ریاست پر ایک اور احسان کیا جائے؟ چنانچہ انہوں نے 'احساس سیلانی لنگر‘ اسکیم کا افتتاح کر دیا۔ پروگرام کے مطابق نادار اور ضرورت مند افراد کو مفت کھانے کی سہولت مہیا کی جا رہی ہے۔ لنگر اسکیم حکومت کی جانب سے جاری کردہ سماجی اور فلاحی بہبود کے جامع پروگرام 'احساس‘ کا اہم جزو ہے۔ اسلام آباد سے شروع کی جانے والی اس اسکیم کو ملک بھر میں پھیلایا جائے گا۔

سیلانی فاؤنڈیشن ایک نجی تنظیم ہے جو کئی برسوں سے یہ کام کر رہی ہے، یعنی بھوکوں کو مفت کھانا کھلا رہی ہے۔ پھر عمران خان نے نیا کارنامہ کیا کیا ہے؟ کیا کیبنٹ میں یہ طے ہوا کہ اب حکومت لنگر خانے کھولے گی، ان کے ساتھ مل کر جو پہلے ہی لنگر چلاتے ہیں؟ یا ہو سکتا ہے اس فاؤنڈیشن کو کچھ رقم  بھی دی جائے۔ لیکن کیا اس سے بھوک ختم ہو جائے گی؟ کیا عمران خان نے بھوک ختم کرنے کے لیے بجٹ کا کوئی حصہ مختص کیا ہے؟ نہیں کیا! اس کا مطلب ہے کہ آپ مستقل بنیادوں پر ایسا کوئی کام نہیں کریں گے۔

اصل بات یہ ہے کہ آپ کسی اور کے اچھے کام میں اس کے گھر جا کر اس کا کریڈٹ چھین رہے ہیں۔ ان بے چاروں نے تو خوش آمدید کہنا ہی تھا کہ وزیر اعظم ان کے گھر آ گئے تھے۔ اچھی بات ہے۔ لیکن بات یہ ہے کہ سیلانی فاؤنڈیشن تو یہ کام کئی برسوں سے ایدھی فاؤنڈیشن کی طرح حکومت کے بغیر بھی کر رہی ہے اور اس حکومت کے جانے کے بعد بھی کرتی رہے گی۔ ان کا یہ عمدہ کام عمران خان کی مرہون منت نہیں ہے۔ عمران خان کی مرہون منت بھوک کے  خاتمے کی پالیسی ہو سکتی تھی، جو حکومت وقت سے نہیں بنائی گئی۔

کچھ عرصہ پہلے حکومت نے ایک وعدہ کیا تھا کہ ایک کروڑ نوکریاں دیں گے اور یہ وعدہ اس لیے تھا کہ لوگ اپنے پیسے خود کما سکیں اور ان پیسوں سے خود کھانا کھا سکیں۔ لیکن اب لنگر کھولنے کا مطلب یہ ہے کہ حکومت کو اعتماد نہیں رہا کہ اس کی معاشی پالیسی ملک میں روزگار مہیا کر سکتی ہے اور غریبوں کی فوج وہیں کی وہیں رہے گی۔ وہ غریب جو کہا جاتا ہے کہ ملک کی آبادی کا چالیس فیصد ہیں اور اکثر بھوکے سوتے ہیں۔ تو حکومت ایسے کتنے پاکستانیوں کو یہ لنگر کھلا سکے گی؟ یہ لنگر خانے بنیادی طور پر تو ایک سماجی تحفظ نظام کا حصہ ہیں، جو انتہائی غریب لوگوں کے لیے ہوتا ہے۔ اب اس کے دو طریقے ہوتے ہیں کہ یا تو حکومت ایسا ماحول پیدا کرے کہ دوسرے لوگ یہ کام کر سکیں یا پھر حکومت خود یہ ذمہ داری سنبھالے۔ لگتا ہے کہ حکومت سے ایسی پالیساں نہیں بنتیں، جن سے بھوک جیسے مسئلے کا انتظامی، پالیسی اور حکومتی سطح پر مستقل بنیادوں پر سدباب ہو سکے، ورنہ نوبت یہاں تک آ جاتی ہے، جیسا کہ اب ہو بھی گیا ہے۔ یعنی ایسے پروگراموں کا حصہ خود وزیر اعظم بن رہے ہیں کیونکہ اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ اس وقت اور ان حالات میں وہ بس اتنا ہی کر سکتے ہیں۔

لنگر خانہ کھولنے سے تین دن  پہلے عمران خان نے اعلان کیا تھا کہ وہ ایک خوشخبری سنائیں گے اور غربت کے خاتمے کا اعلان کریں گے۔ لیکن کسی کو کھانا دینے سے تو غربت ختم نہیں ہوتی۔ تو اس کا مطلب یہ نکلا کہ پاکستانی وزیر اعظم کی کسی بھی چیز کو سمجھنے کی صلاحیت اتنی کم ہے کہ ان کو خود اس بات کا بھی علم نہیں کہ کسی کو کھانا کھلانے سے غربت ختم نہیں ہوتی۔ یہ کوئی غربت کے خاتمے کی پالیسی نہیں ہے، بلکہ محض ایک وقت کی بھوک مٹانے کا انتظام ہے، جس کے ساتھ بھی غربت تو وہیں رہے گی۔

اس کے علاوہ جس انداز سے وزیر اعظم سالن کی پلیٹیں تقسیم کرتے ہوئے تصاویر بنوا رہے تھے، وہ کسی غریب کی عزت نفس کا مذاق اڑانے اور ان پر احسان کرنے کے مترادف تھا۔ دوسری جانب کل وہ بھی تو عمران خان ہی تھے، جنہوں نے کہا تھا کہ ملک میں کینسر جیسے موذی مرض سے لڑیں گے اور حکومت میں آئے بغیر انہوں نے یہ کر کے دکھا بھی دیا تھا۔ تو حکومت میں آ کر سارے سرکاری وسائل کے ہوتے ہوئے وہ اگر کسی نجی فاؤنڈیشن کے کارکنوں کے ساتھ تصاویر بنوانے کے بعد یہ کہتے ہیں کہ وہ غربت ختم کر رہے ہیں، تو یہ کچھ بھی ہو، غربت کا خاتمہ بہرحال نہیں ہے۔

عمران خان تشہیر کر رہے ہیں کہ جیسے وہ سرکاری وسائل سے ملک میں غربت ختم کر رہے ہیں۔ حالانکہ غربت تو بڑھ گئی ہے۔ جب معاشی ترقی کی شرح 5.3 فیصد سے کم ہو کر 2.4 فیصد پر آ گئی ہے، تو اس کا مطلب ہے غربت بڑھ گئی ہے، بھوک بڑھ گئی ہے اور بے روزگاری بڑھ گئی ہے۔ اس لیے کسی کو دو وقت کی روٹی دے کر آپ یہ کریڈٹ نہیں لے سکتے کہ آپ لوگوں کے ہمدرد ہیں اور آپ کے پاس پاکستانی عوام کے مسائل کا حل بھی ہے۔ حکومت  کے پاس یہ حل نہیں ہے۔ آپ یہ تشہیر کر کے عوام کو بے وقوف نہیں بنا سکتے کہ حالات آپ کے کنٹرول میں ہیں اور آپ ملکی مسائل حل کر رہے ہیں۔ اس لیے کہ آپ ایسا کر ہی نہیں رہے بلکہ مسائل پر پردہ ڈال رہے ہیں۔ سالن کی پلیٹ غربت ختم نہیں کرتی۔ غربت روزگار سے ختم ہوتی ہے، تعلیم سے ختم ہوتی ہے۔

دل دریا سمندروں ڈونگے، کون دلاں دیاں جانے ہُو۔ آپ کی نیت شاید اچھی ہو، لیکن اصولی اور عملی طور پر صاف دکھائی دیتا ہے کہ آپ نے طے کر لیا ہے کہ ایسے اقدامات کیے جائیں، جو بجٹ کی شکل میں بھی نظر آتے ہوں لیکن جن سے غربت، بے روزگاری اور بھوک میں اضافہ ہو۔

عمران خان کی حکومت ایک ایسے پروگرام کو سپورٹ کر رہی ہے، جس سے ملک میں غریب ترین افراد کو مدد ملتی ہے۔ یہ پروگرام بینظیر انکم سپورٹ پروگرام ہے، جو پیپلز پارٹی کی حکومت نے شروع کیا تھا اور جس کو نواز شریف کی حکومت نے بھی جاری رکھا تھا۔ اس پروگرام کو عمران کان کی حکومت بھی جاری رکھے ہوئے ہے۔ لیکن اس کا نام تبدیل کر کے 'احساس‘ پروگرام رکھ دیا گیا ہے۔
ڈی ڈبلیو کے ایڈیٹرز ہر صبح اپنی تازہ ترین خبریں اور چنیدہ رپورٹس اپنے پڑھنے والوں کو بھیجتے ہیں۔ آپ بھی یہاں کلک کر کے یہ نیوز لیٹر موصول کر سکتے ہیں۔