1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھوک کے موضوع پر عالمی کانفرنس، ڈوئچے ویلے کا تبصرہ

18 نومبر 2009

روم ميں بھوک کے موضوع پر تین روزہ عالمی کانفرنس کا آج آخری دن تھا۔ اس کانفرنس کا انعقاد ايک قابل تعريف اقدام ہے۔ تاہم سياست کا سارا زور اشيائے صرف کی خريداری پر ہے۔ اس بارے ميں ہَيلے ژیپےزَن کا لکھا تبصرہ:

https://p.dw.com/p/KaOf
بان کی مون عالمی کانفرنس سے خطاب کے دورانتصویر: AP

اقتصادی گرم بازاری کے لئے اربوں ماليت کے امدادی پيکیج تيار کئے گئے ہيں۔ ليکن ان سے، مسائل کے پائيدار اور باکفايت حل تلاش کرنے میں رکاوٹیں پيدا ہو رہی ہیں۔روم ميں سولہ نومبر سے شروع ہونے والی اس تین روزہ عالمی سربراہی کانفرنس کا اہتمام خوراک اور زراعت کی عالمی تنظيم FAO نے کيا۔ اس نتيجے پر پہنچنے کے لئے زيادہ غوروفکر کی ضرورت نہيں کہ غربت اور بھوک کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ دنيا کے ستر فيصد افراد جو انتہائی غربت کے شکار ہيں،ديہی علاقوں ميں رہتے ہيں۔ اگر کوئی کسان جو ہر کسی کے لئے اناج اگاتا ہے، خود اپنا ہی پیٹ نہ بھر سکے تو پھر کہیں نہ کہیں،کوئی بہت بڑی خرابی ضرور موجود ہے۔

Infografik zum Thema "Welternährungskonferenz in Rom" (kroatisch)
بھوک کے اعتبار سے دنیا کے مختلف خطوں اور ممالک کی حالت

درحقيقت يہ بات بالکل ناقابل فہم ہے کہ يہ شعور پيدا کرنے ميں اِس قدر زيادہ وقت لگا ہے کہ بھوک اور غربت پر صرف ديہی آبادی کی ترقی پر رقم خرچ کر کے ہی قابو پايا جاسکتا ہے۔ عالمی ادارہ برائے خوراک و زراعت FAO روم کی اس کانفرنس کے ذريعے عالمی رہنماؤں کو ديہی علاقوں پر زيادہ رقوم خرچ کرنے پر آمادہ کرنا چاہتا ہے۔

Welternährungsgipfel 2009 in Rom
روم میں منعقدہ اس کانفرنس کا ایک منظرتصویر: AP

دنيا میں قریب ایک ارب انسان بھوک کا شکار ہيں۔ بھوک اور غربت کو دور کرنے کے لئے عالمی سطح پر سوچ ميں تبديلی کی ضرورت ہے۔

اگر واقعی کسی بہتر تبديلی کی خواہش پائی اجتی ہے، تو صرف غذا ہی نہيں بلکہ ماحول،آب و ہوا، اقتصاديت اور ماليات کوبھی محض خرچ اور صرف کے نقطہء نظر سے نہيں بلکہ کفايت شعاری اور پائیداری کی بنياد پر نئے سرے سے تعمير کرنا ہوگا۔ اس صورتحال ميں صنعتی ممالک کے ان کی اقتصادی سرگرميوں کو تيز کرنے کے منصوبے عجيب و غريب اور صرف کے اُس فلسفے کی باقيات معلوم ہوتے ہيں جسے کلب آف روم سن 1972ء ہی ميں اپنے’’اقتصادی نمو کی حدود‘‘ نامی مطالعے ميں فرسودہ قرار دے چکا ہے۔

نئی جرمن حکومت بھی شہریوں کو صرف کی ترغيب کے ذريعے معیشت ميں گرم بازاری لانا چاہتی ہے۔ ليکن اس سے نہ تو اشيائے خوراک اور ماليات کا بحران حل ہو سکے گا اور نہ ہی ماحولیاتی تباہی کے عمل کو روکا جا سکے گا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ دنيا ميں وسائل کی تقسيم کے نظام کو بہتر بنايا جائے۔ چيزيں وہی خريد سکتے ہیں، جن کے پاس پيسہ ہے۔ آج ايک ارب انسانوں کو کافی غذا کی فراہمی کے لئے بہت زیادہ مالی وسائل درکار ہیں، ليکن دوسری طرف تقریباً اِتنے ہی انسان اِتنے زیادہ خوش خوراک ہیں کہ انہیں بہت زیادہ موٹاپے کا سامنا ہے۔

تبصرہ : ہَيلے ژیپےزَن/ ترجمہ: شہاب احمد صدیقی

ادارت : مقبول ملک