1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بیزواڈا ولسن نے ’ایشیائی نوبل انعام‘ وصول کر لیا

عاطف بلوچ31 اگست 2016

بدھ کے دن منیلا کے کلچرل سینٹر میں منعقد کی گئی ایک تقریب میں بیزواڈا ولسن سمیت چھ شخصیات نے رواں برس کا ’رامن میگ سیسے ایوارڈ وصول کر لیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1JtEV
Indien Bezwada Wilson
انسانی حقوق کے سرکردہ علمبردار بیزواڈا ولسن خود بھی دلت ہیںتصویر: Safai Karmachari Andolan/Murali Krishnan

اس سال ’رامن میگ سیسے‘ ایوارڈ کے حقدار چھ افراد میں ایک ایسے بھارتی شہری بھی شامل ہیں، جو ملک میں پسماندہ دلت برادری کی ترقی کے لیے کوشاں ہیں۔ انسانی حقوق کے سرکردہ علمبردار بیزواڈا ولسن خود بھی دلت ہیں۔

بیزواڈا ولسن کے علاوہ جن دیگر افراد کو ایشیا کے اس اہم ایوارڈ کا حقدار قرار دیا گیا ہے، ان میں فلپائن میں انسداد بدعنوانی کے شعبے کی سربراہ کونچیٹا کارپیو مورالیس بھی شامل ہیں۔ جن دیگر چار افراد یا تنظیموں کو اس انعام سے نوازا گیا ہے، ان میں بھارتی فن کار ٹی ایم کرشنا، ایک جاپانی رضاکار گروپ، لاؤس میں ہنگامی امداد مہیا کرنے والا ایک ادارہ اور انڈونیشیا میں سرگرم ایک مسلم خیراتی تنظیم بھی شامل ہے۔

یہ انعام فلپائن کے سابق صدر رامن میگ سیسے سے منسوب ہے جبکہ اسے ایشیا کا نوبل انعام بھی قرار دیا جاتا ہے۔ امسالہ انعام کی حقدار مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی ایسی ممتاز شخصیات یا تنظیمیں ہوتی ہیں، جنہوں نے اپنے اپنے شعبوں میں انقلابی خدمات سر انجام دی ہیں۔ یہ انعام اپریل 1957ء میں فلپائن کی حکومت کی رضامندی سے نیو یارک شہر میں مقیم راک فیلر برادران فنڈ کے ٹرسٹیوں نے شروع کیا تھا۔ اس سال تقریب انعامات کا انعقاد اکتیس اگست کو کیا گیا۔

بیزواڈا ولسن نے اس انعام کے لیے اپنی نامزدگی کو اپنی خدمات کا اعتراف قرار دیا ہے۔ ’نچلی ذات‘ یعنی دلت کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے ولسن اپنے کنبے کے پہلے فرد تھے، جنہوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ وہ گزشتہ بتیس برسوں سے دلت کمیونٹی کی بہتری کی خاطر سرگرم ہیں۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے ’صفائی کرمچاری اندولن‘ کے نام سے ایک تحریک بھی شروع کر رکھی ہے۔

بھارت میں انسانی فضلے کو ہاتھوں سے ٹھکانے لگانے کا عمل آج تک جاری ہے۔ وہاں اس کام کے لیے بالخصوص ’نچلی ذات تصور کی جانے والی کمیونٹی‘ سے تعلق رکھنے والے دلت افراد کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔ ولسن کی کوششوں کے باعث بھارت بھر میں یہ کام کرنے والی تقریباﹰ چھ لاکھ افراد پر مشتمل کمیونٹی کے ارکان کی نصف تعداد کو اس پیشے سے نجات مل چکی ہے۔ تین دہائیوں پر مشتمل ان کی خدمات کو دیکھتے ہوئے انہیں اس سال رامن میگ سیسے ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔

فلپائن میں پبلک پراسیکیوٹر کارپیو مورالیس کو بھی یہ ایوارڈ دیا گیا ہے۔ اس خاتون اہلکار نے ملک میں بدعنوانی کے خاتمے کے لیے بیش بہا خدمات سرانجام دی ہیں اور اسی لیے وہ اس انعام کی حقدار قرار دی گئی ہیں۔ ملکی سپریم کورٹ کی سابق جسٹس نے بدعنوانی کے خاتمے کے لیے سابق صدر اور کئی دیگر اعلیٰ حکومتی اہلکاروں کے خلاف مقدمات دائر کرنے میں بھی کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی تھی۔

بھارتی فن کار ٹی ایم کرشنا کو اس انعام کا حقدار اس لیے قرار دیا گیا ہے کیونکہ انہوں نے فن کے ذریعے بھارت کے منقسم سماجی دھڑوں کو ایک کرنے کی کوشش کی ہے۔ کرشنا نے بھارت کے اعلیٰ حلقوں میں مشہور کرناٹک میوزک کو عوامی اسکولوں اور نوجوانوں میں متعارف کرانے کا اہم کام کیا۔ ایک امیر گھرانے میں پیدا ہونے والے اس فن کار نے نوے کی دہائی سے اب تک بے شمار لوگوں تک موسیقی کے اس انگ کو عام کیا ہے۔

انڈونیشیا کی مسلم آرگنائزیشن Dompet Dhuafa نے ملک میں زکواة کے نظام میں انقلابی تبدیلی لانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اپنی خدمات کی وجہ سے یہ ملک میں خیراتی کام کرنے والا سب سے بڑا ادارہ بن چکا ہے۔ اسی باعث اس ادارے کو اس مرتبہ رامن میگ سیسے انعام سے نوازا گیا ہے۔

اس کے علاوہ جاپان کے ’اوورسیز کوآپریشن والنٹیئرز‘ نامی گروپ کو بھی رامن میگ سیسے انعام دیا گیا ہے۔ اکاون برس قبل قیام میں آنے والا یہ گروپ جاپانی نوجوانوں کو بیرون ممالک رضاکارانہ خدمات انجام دینے کی ترغیب دیتا ہے۔

اس سال لاؤس کے Vientiane Rescue نامی ایک ادارے کو بھی اس انعام سے نوازا گیا ہے۔ ہنگامی اور ریسکیو کام انجام دینے والے اس ادارے نے سڑکوں پر حادثات میں زخمی ہونے والوں کو فوری طبی امداد بہم پہنچانے کا عہد کر رکھا ہے، جس کی وجہ سے سالانہ بے شمار لوگوں کی زندگیاں بروقت بچا لی جاتی ہیں۔