1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بیسلان: اسکول فائرنگ واقعہ کو پانچ سال مکمل

1 ستمبر 2009

روسی علاقے شمالی قفقاز کے شہر بیسلان میں پیش آنے والے اُس ہولناک واقعے کومنگل کو پانچ سال پورے ہو رہے ہیں، جس میں تیس سے زیادہ دہشت گردوں نے ایک اسکول کے طلبہ، اُن کے والدین اور اساتذہ کو یرغمال بنا لیا تھا۔

https://p.dw.com/p/JNFB
بیسلان اسکول فارئرنگ کے پانچ سال مکمل ہونے پر ایک یادگاری تقریب کا اہتمام کیا گیاتصویر: picture-alliance/dpa

روسی خصوصی یونٹوں کی جانب سے یرغمالیوں کی رہائی کے لئے کی جانے والی کارروائی کے دوران ایک سو چھیاسی بچوں سمیت تین سو پینتیس افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

روس میں ہر سال یکم ستمبر کے روز اسکولوں میں نئے تعلیمی سال کی ابتدا ہوتی ہے لیکن شمالی قفقاز کے شہر بیسلان میں یہ تعلیمی سال تاخیر سے شروع ہوتا ہے۔ اِس تاخیر کی وجہ یہ ہے کہ بیسلان کے شہری یکم ستمبر سن 2004ء کو پیش آنے والے اُس ہولناک واقعے کی یاد مناتے ہیں، جس میں تیس سے زیادہ مسلمان دہشت گردوں نے بیسلان کے اسکول پر دھاوا بول دیا تھا اور تین روز تک گیارہ سو سے زیادہ انسانوں کو یرغمال بنائے رکھا تھا۔

یہ واقعہ تین ستمبر کو تین سو تیس سے زائد انسانوں کی موت کے ساتھ انجام کو پہنچا تھا۔ انسانی حقوق کے علمبرداروں کے خیال میں روسی حکمران اِس المناک و اقعے کو جلد از جلد فراموش کر دینا چاہتے ہیں۔ اِس حوالے سے ماسکو کی ہیلسنکی گروپ کہلانے و الی تنظیم کی لُڈمِلا الیکسیئیوا، جو حقوقِ انسانی کی علمبردار ممتاز شخصیات میں سے ایک ہیں، بتاتی ہیں: ’’ہمارے ہاں یہ ایک عام سی بات ہے کہ ہماری تاریخ کے ناخوشگوار واقعات کو لوگوں کی اجتماعی یادداشت سے مٹا دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ بیسلان کے معاملے میں بھی حکمرانوں نے یہی پالیسی اختیار کی ہے۔ عوام لیکن پھر بھی اِس واقعے کی یاد تازہ رکھے ہوئے ہیں اور نہیں چاہتے کہ اِس المناک واقعے کو فراموش کر دیا جائے۔‘‘

Geiselnahme an Schule in Nordossetien
اسکول کی عمارت سے بھاگنے میں کامیاب ہونے والے یرغمالی، فائل فوٹو تین ستمبر 2004ءتصویر: dpa

یہ یاد اُن والدین اور بالخصوص ماؤں کے لئے اور بھی زیادہ تکلیف دہ ہے، جو اِس واقعے میں اپنے بچے کھو بیٹھیں۔ بیسلان کی ماؤں کی کمیٹی کی انچارج سُوزانہ دُودیئیوا اِس المیے کے اصل اسباب کے بارے میں اختیار کی جانے والی خاموشی کو مجرمانہ قرار دیتی ہیں : ’’گذشتہ دو برسوں کے دوران بیسلان کے متاثرین کے بارے میں نہ تو اخبارات و جرائد میں کچھ شائع ہوا اور نہ ہی ٹیلی وژن نے کوئی رپورٹ دکھائی۔ میرے خیال میں اِس خاموشی کی ایک ہی وجہ ہے اور وہ یہ کہ حکمران اپنی غلطیوں کا اعتراف نہیں کرنا چاہتے۔ ایسا کرتے ہوئے وہ ایک بار پھر اپنے شہریوں کے ساتھ فریب دہی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔‘‘

لواحقین کا مطالبہ ہے کہ اِس واقعے کی جامع تحقیقات کروائی جائیں اور مجرموں کو کیفرِ کردار تک پہنچایا جائے۔ شہر بیسلان میں آج اسکولوں میں گھنٹیاں بجا کر اِس واقعے میں مرنے والوں کی یاد تازہ کی گئی جبکہ پانچ سال پہلے تباہ ہونے والے اسکول کے قریب منعقدہ تقریب میں کوئی تین ہزار افراد نے شرکت کی۔ نئے حملوں کے خطرے کے پیشِ نظر حکام نے شمالی قفقاز کے پورے بحران زدہ خطے میں سخت حفاظتی انتظامات کر رکھے ہیں۔

اِس خطے کے اسلام پسند عناصر روس سے علٰیحدگی اور قفقاز کی ایک آزاد ریاست قائم کرنے کے خواہاں ہے جبکہ روسی صدر دمتری میدوی ایدف اور داخلی سیکرٹ سروس ایف ایس بی نے ایک بار پھر اِن انتہا پسندوں کو، جنہیں سرکاری زبان میں ’’ڈاکو‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، مکمل طور پر ختم کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔

رپورٹ : امجد علی

ادارت: کشور مصطفےٰ