1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بین الاقوامی یومِ جمہوریت: پاکستان کہاں کھڑا ہے؟

15 ستمبر 2017

آج جمعہ پندرہ ستمبر کو منائے جانے والے بین الاقوامی یومِ جمہوریت کے موقع پر کئی ماہرین اور تجزیہ نگاروں کے مطابق پاکستان ابھی تک اپنے لیے جمہوری اداروں کی مضبوطی کی تلاش میں ہے۔

https://p.dw.com/p/2k1Nw
Wahlen in Pakistan 2013
تصویر: Reuters/Mian Khursheed

ماہرین سیاسیات کا کہنا ہے کہ سات عشروں سے بھی زائد عرصہ قبل قائم ہونے والی اسلامی جمہوری ریاست پاکستان کو، جس میں کئی دہائیوں تک کسی نہ کسی صورت میں متعدد فوجی حکمران ہی اقتدار میں رہے ہیں، آج تک یہ موقع ہی نہیں مل سکا کہ اس کا کوئی ایک بھی منتخب وزیر اعظم اپنے عہدے کی پارلیمانی مدت پوری کر سکے۔

پاکستان میں کسی جمہوری حکمران کو اگر فوج نے مارشل لا لگا کر برطرف نہ کیا، تو اسے یا تو خود صدر مملکت نے اس کے عہدے سے ہَٹا دیا یا پھر وہ کسی عدالتی فیصلے کے تحت اقتدار سے باہر کر دیا گیا۔ اس کی ایک تازہ مثال وزیر اعظم نواز شریف کا حال ہی میں نااہل قرار دیا جانا بھی ہے، جو کسی عدالتی فیصلے کے بعد اپنے منصب سے محروم ہونے والے کوئی پہلے پاکستانی سربراہ حکومت نہیں تھے۔

Pakistan Premierminister Nawaz Sharif
ںواز شریف کو پاکستانی سپریم کورٹ نے نا اہل قرار دے کر ان کے عہدے سے ہٹا دیاتصویر: Reuters/C. Firouz

پاکستانی عوام کے لیے ان کے ملک میں جمہوریت اور جمہوری اداروں کی موجودہ صورت حال کس حد تک تسلی بخش یا باعث فخر ہے؟ عالمی یومِ جمہوریت کے موقع پر ڈوئچے ویلے نے جب ایک گفتگو کے دوران یہ سوال معروف تجزیہ نگار حسن عسکری سے پوچھا، تو انہوں نے کہا، ’’پاکستانیوں کو بھی یومِ جمہوریت ضرور منانا چاہیے۔ اس سوچ کے تحت کہ ملک میں جمہوریت تو ہے، لیکن اسے مزید بہتر اور مضبوط کیسے بنایا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں جمہوریت کا سب سے بڑا مسئلہ اس کے معیار کا ہے۔ یہ بات باعث اطمینان ہونی چاہیے کہ پاکستان میں جمہوریت ہے۔ لیکن یہ بھی سمجھا جانا چاہیے کہ اس جمہوریت اور جمہوری اداروں کو مستحکم بنانے کے لیے ابھی بہت کچھ کیا جانا باقی ہے۔ ایک ریاست کے طور پر پاکستان کے لیے لازمی ہے کہ اس کا جمہوریت کا سفر مسلسل جاری رہے۔‘‘

اس سوال کے جواب میں کہ آیا پاکستانی عوام کو واقعی جمہوریت کے وہ فوائد مل رہے ہیں، جو کسی جمہوری سیاسی نظام کا لازمی نتیجہ ہوتے ہیں، حسن عسکری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’اس ملک میں جمہوری عمل میں تسلسل نہیں رہا۔ فوج وقفے وقفے سے اقتدار پر قابض رہی۔ اس کے علاوہ جب جمہوریت ہوتی ہے، تو جمہوری اداروں کو آزادانہ طور کام بھی نہیں کرنے دیا جاتا۔ کسی بھی ریاست میں جمہوریت کو مضبوط بنانے کا ایک اہم راستہ یہ ہوتا ہے کہ جمہوری اداروں کو استعمال کرتے ہوئے ان کے ذریعے عوامی مسائل حل کیے جائیں۔‘‘

Pakistan Islamabad International democracy day
پاکستان کو وجود میں آئے 70 برس ہو چکے ہیں تاہم ابھی تک عوام کو صحت سمیت مناسب بنیادی سہولیات ہی میسر نہیں ہیں۔تصویر: DW/I. Jabeen

پاکستان میں نظام تعلیم اور سیاسی تاریخ پر گہری نظر رکھنے والی پروفیسر ڈاکٹر مہرالنسا علی نے عالمی یومِ جمہوریت کی مناسبت سے ڈی ڈبلیو کے ساتھ بات چیت میں بہت ناقدانہ سوچ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جس قسم کی جمہوریت پاکستان میں پائی جاتی ہے، وہ اس پر سرے سے یقین ہی نہیں رکھتیں۔

پروفیسر ڈاکٹر مہرالنسا علی نے کہا، ’’ایک ایسا جمہوری نظام جس میں نہ تو تمام بچوں کو یکساں تعلیمی سہولیات میسر ہوں، نہ ہی ان کے مستقبل کی فکر کرتے ہوئے ان کے لیے تعلیمی نصاب کو جدید خطوط پر استوار کیا جا رہا ہو۔ جہاں نئی نسل کے لیے روزگار کے بہتر اور یکساں مواقع کا بھی فقدان ہو اگر ہم اسے بھی جمہوری نظام ہی کہتے رہیں، تو میری رائے میں ہم نے اب تک جمہوریت کے حقیقی معنوں سے بھی واقفیت حاصل نہیں کی۔‘‘

پاکستان کے ریاستی وجود کے گزشتہ سات عشروں میں اس ملک میں اگر جمہوریت بار بار گرتی سنبھلتی رہی ہے، تو اس کا ذمہ دار کون رہا ہے؟ اس بارے میں لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز سے منسلک ماہر سیاسیات پروفیسر ڈاکٹر محمد وسیم نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’جمہوریت کے تناظر میں پاکستان کی اچھی باتیں بھی ہیں اور کمزوریاں بھی۔ اچھی بات یہ ہے کہ پاکستان کا اپنا آئین ہے، جو جمہوریت کو مرکزیت دیتا ہے لیکن منفی بات یہ ہے کہ جمہوری ادارے کبھی اتنے مضبوط نہیں رہے کہ ریاستی آئین کے ہر حال میں احترام کو یقینی بنا سکیں۔‘‘

پروفیسر ڈاکٹر محمد وسیم  نے مزید بتایا کہ یہ بات بھی اہم ہے کہ پاکستان میں چند مرتبہ تو مارشل لا کے نفاذ کے ساتھ  اقتدار میں آنے والی فوجی حکومتیں بھی اسی نتیجے پر پہنچیں کہ ملک میں عام انتخابات کروا کر اقتدار منتخب سول حکمرانوں کو سونپ دیا جائے۔ ان کے مطابق، ’’جمہوریت میں ہی ہمارے مسائل کے حل پوشیدہ ہیں۔‘‘

Pakistan Islamabad International democracy day
ماہرین کے مطابق پاکستان میں تمام بچوں کو ابھی تک یکساں تعلیمی سہولیات میسر نہیں ہیںتصویر: DW/I. Jabeen

ماہرین کی رائے میں پاکستان ایک کثیرالقومی، کثیراللسانی اور کثیرالمذہبی ریاست ہے، جس میں ہر طرح کے تنوع کے باوجود مساوات صرف جمہوری نظام کے تحت ہی ممکن ہے۔ اسی طرح تمام شہریوں کی ریاست اور اس کے وسائل میں شراکت داری بھی پارلیمانی نظام ہی کے باعث ممکن ہے۔

اپنے اس موقف کے حق میں یہ ماہرین دلیل یہ دیتے ہیں کہ آزاد پاکستان کی تاریخ کی پہلی تین دہائیوں میں بلاشبہ جمہوری طرز عمل زیادہ نہیں تھا اور الیکشن بھی زیادہ نہ ہوئے ہوں، مگر گزشتہ چار عشروں کے دوران دو بار مارشل لا کے نفاذ کے باوجود ملک میں دس بار قومی الیکشن ہوئے۔ ان انتخابات میں جمہوری اور اعتدال پسند سیاسی جماعتوں کو عوام نے بار بار  ووٹ کے ذریعے ہی منتخب کیا تھا اور یہی جدید پاکستان کی جمہوریت پسندی کا اہم ترین ثبوت بھی ہے۔