1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’بیٹا بے گناہ ہے، موت کی سزا نہ دیں‘، سعودی شاہ سے اپیل

امجد علی23 ستمبر 2015

سعودی عرب میں ایک اکیس سالہ شیعہ نوجوان کو ملک میں اصلاحات کے حق میں مظاہروں میں شرکت پر موت کی سزا سنائی جا چکی ہے۔ اس نوجوان کے باپ نے شاہ سلمان سے اپیل کی ہے کہ اُس کے بیٹے کی زندگی بخش دی جائے۔

https://p.dw.com/p/1Gbyb
Symbolbild Schwert Exekution Saudi-Arabien
سر قلم کیے جانے کے حوالے سے ایک علامتی تصویرتصویر: picture-alliance/dpa/Abir Abdullah

نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق اس نوجوان کے والد محمد النمر نے ایک انٹرویو میں امید ظاہر کی کہ شاہ سلمان اُس کے بیٹے علی کو، جو فروری 2012ء میں اپنی گرفتاری کے وقت صرف سترہ سال کا تھا، بچا لیں گے۔ یہ کیس آج کل پوری دنیا کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔

Sheikh Nimr al-Nimr bei der Festnahme 08.07.2012
آٹھ جولائی 2012ء: شیعہ مذہبی رہنما شیخ نمر النمر کو گرفتاری کے وقت پولیس نے ٹانگ میں گولی ماری تھی، اُنہیں بھی موت کی سزا سنائی جا چکی ہےتصویر: AFP/GettyImages

محمد النمر نے بدھ کے روز اپنے بیٹے کے ڈیتھ وارنٹ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا:’’ہم امید کر رہے ہیں کہ وہ اُس پر دستخط نہیں کریں گے۔ سعودی عرب کی اعلیٰ ترین عدالت علی النمر کو موت کی سزا سنا چکی ہے اور اب اس نوجوان کی زندگی کا فیصلہ بادشاہ کے ہاتھوں میں ہے۔

محمد النمر نے خبردار کیا کہ اگر اُس کے بیٹے کو موت کی سزا دے دی گئی تو شیعہ اقلیت کی جانب سے پُر تشدد رد عمل سامنے آ سکتا ہے، جو کہ وہ خود بھی نہیں چاہتا:’’ہمیں اس کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم نہیں چاہتے کہ خون کا ایک بھی قطرہ بہے۔‘‘

Jemen Bürgerinitiative Protest gegen Todesstrafe in Saudi-Arabien
سعودی شیعہ اقلیت شیخ نمر النمر کو اور اب اُن کے بھتیجے علی النمر کو سزائے موت سنائے جانے کے خلاف سراپا احتجاج ہےتصویر: picture-alliance/dpa/Y. Arhab

یہ اکیس سالہ نوجوان ایک شیعہ مذہبی رہنما نمر النمر کا بھتیجا ہے۔ خود اس مذہبی رہنما نمر النمر کو بھی سزائے موت سنائی جا چکی ہے۔

نمر النمر کو اُن مظاہروں کے پیچھے کارفرما اصل قوت گردانا جاتا ہے، جو چار سال پہلے اُس مشرقی صوبے میں شروع ہوئے تھے، جہاں سنی اکثریت کے حامل اس ملک کے زیادہ تر شیعہ آباد ہیں۔

علی النمر کے والد نے اعتراف کیا کہ اُس کا بیٹا، جو ایک ہائی اسکول میں پڑھتا تھا، ہزاروں دیگر افراد کے ہمراہ احتجاجی مظاہروں میں شریک ہوا تھا۔ تاہم اُس نے کہا کہ اُس پر نقب زنی، پولیس پر حملہ کرنے اور آتش گیر بم پھینکنے کے جو متعدد دیگر الزامات عائد کیے گئے ہیں، وہ اُن کا مرتکب نہیں ہوا ہے اور بے گناہ ہے۔

بدھ کے روز فرانسیسی وزارتِ خارجہ نے بھی اپیل کی ہے کہ اس نوجوان کی سزائے موت پر عملدرآمد روک دیا جائے۔ وزارت کے ایک ترجمان نے کہا کہ اُن کا ملک کسی قسم کے بھی حالات میں سزائے موت کا مخالف ہے تاہم یہ نوجوان اُس وقت نابالغ تھا، جب یہ واقعات پیش آئے، جن کے الزام میں اُسے یہ سزا سنائی گئی ہے۔

اقوام متحدہ کے ماہرین نے بھی اس امر پر زور دیا ہے کہ اس نوجوان کی سزا معاف کر دی جائے۔ ان ماہرین کا کہنا ہے کہ اس نوجوان پر تشدد کر کے اُس سے اعترافِ جرم کروایا گیا اور کسی وکیل تک رسائی کا بھی مناسب موقع نہیں دیا گیا۔ مزید یہ کہ اُس کے کیس کی سماعت ایسے حالات میں ہوئی، جو بین الاقوامی معیارات سے مطابقت نہیں رکھتے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید