1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بےنظير کا قتل، تين سال بعد بھی ايک معمہ

27 دسمبر 2010

پاکستان کی سابق وزير اعظم بے نظير بھٹو کے قتل کے معمے نے ايک نيا موڑ ليا ہے۔ حال ہی ميں گرفتار کئے جانے والے سابق پوليس افسران نے خفيہ اداروں اور فوج کے ايسے افسروں کے نام لئے ہيں۔

https://p.dw.com/p/zqE3
اکتوبر 2007،کراچی حملے کے بعد بے نظيرتصویر: AP

گرفتارشدہ سابق پوليس افسران نے خفيہ اداروں کے جن اعلی افسروں کے نام لئے ہيں، اُنہيں بے نظير بھٹو کے قتل سے مربوط کيا جا سکتا ہے۔ ليکن کچھ سياسی تجزيہ نگاروں کا کہنا ہے کہ يہ صرف حکومت کی تاخير کرنے کی پاليسی کا تسلسل ہے۔

پاکستان کی سابق وزير اعظم اور ملک کی سب سے بڑی سياسی جماعت کی قائد بے نظير بھٹو کو تين سال قبل 27 دسمبر سن 2007 کو راولپنڈی ميں ايک انتخاباتی جلسے ميں خود کش حملے ميں قتل کرديا گيا تھا۔ ان کی موت کے بعد پيپلز پارٹی نے انتخابات جيتے اور اُن کے شوہر آصف علی زرداری نے پاکستان کے صدر کا عہدہ سنبھال ليا۔ ليکن پيپلز پارٹی کی حکومت کے دو سال گذرنے کے باوجود بے نظير کے قتل کيس ميں کوئی خاص پيش رفت نہيں ہوئی ہے اور وہ اب بھی ايک پراسرار معمہ بنا ہوا ہے۔

ايک پرانے سياستدان اور پيپلز پارٹی کے سينيٹر تاج حيدر نے اس الزام کی ترديد کی ہے کہ حکومت نے بے نظير کے قاتلوں کا سراغ لگانے کے لئے کوئی خاص کوشش نہيں کی۔ انہوں نے ڈوئچے ويلے کو بتايا:

’’ہم اس کيس کی تفتيش سائنسی خطوط پر کرنا چاہتے ہيں۔ ہم نے پہلے مرحلے میں اقوام متحدہ کو اس تفتيش ميں شامل کيا تاکہ اس قتل کے پيچھے سازش کے وسيع تر پہلو سامنے آ سکيں۔ اقوام متحدہ نے کچھ سمتوں کی طرف اشارہ کيا ہے اور ہم اسی رخ پر بڑھ رہے ہيں۔‘‘

Pakistan Ausschreitungen
بے نظير کے قتل کے بعد لاہور ميں ہونے والے ہنگامےتصویر: dpa - Report

حکومت راولپنڈی پوليس کے دو افسران سعود عزيز اور خرم شہزاد کی حاليہ گرفتاری کو ايک بڑی کاميابی قرار دے رہی ہے۔ يہ دونوں افسر بے نظير بھٹو کی حفاظت کے ذمہ دار تھے۔ وکيل استغاثہ ذوالفقار چوہدری کے مطابق ان دو سا بق پوليس عہديداروں نے پاکستانی خفيہ سروس آئی ايس آئی کے چار يا پانچ ايسے اعلیٰ فوجی افسران کے نام بتائے ہيں، جن کے بارے ميں اُن کا دعویٰ ہے کہ اُن کے اِن پوليس افسران کے ساتھ رابطے تھے۔

تاہم سياسی تجزيہ نگاروں کو شک ہے کہ حکومت انتہائی طاقتور آئی ايس آئی کے خلاف کوئی کارروائی کرے گی۔ پاکستان کے ممتاز انگريزی روزنامے ڈان کے صحافی کامران شفيع نے ڈوئچے ويلے کو بتايا:

’’سول حکومت آرمی اور آئی ايس آئی کے سامنے بالکل بے بس ہے، جيسا کہ ہم پہلے بھی کئی بار ديکھ چکے ہيں۔ بہت بڑے پيمانے پر باتيں چھپائی جا رہی ہيں اور بہت کچھ قابل يقين نظر نہيں آتا۔‘‘

Benazir Bhutto vor Attentat Erkenntnisse Scotland Yard
راولپنڈی ميں اپنے آخری عوامی جلسے سے خطاب کے لئے بے نظير کی آمدتصویر: AP

بے نظير بھٹو کے قتل کی تحقيقات کے لئے اقوام متحدہ کا جو کميشن قائم کيا گيا تھا، اُس نے اس سال کے شروع ميں اپنی تفصيلی رپورٹ ميں کہا کہ بھٹو کے لئے حفاظتی انتظامات بہت ناکافی تھے اور چند خفيہ اداروں نے ابتدائی تفتيش ميں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی تھی۔

اس کيس کا ايک اور پہلو پاکستان کے سابق فوجی حکمران پرويز مشرف کا کردار ہے۔ حکومت پر سخت دباؤ ہے کہ مشرف کو برطانيہ سے واپس لايا جائے، جہاں وہ خود ساختہ جلاوطنی کی زندگی گذار رہے ہيں۔ کامران شفيع نے ڈوئچے ويلے کو بتایا کہ وہ يہ نہيں سمجھتے کہ پرويز مشرف کو واپس لايا جائے گا۔ تاہم اُنہوں نے کہا کہ مشرف اُس وقت ملک کے صدر اور فوجی آمر تھے۔ اُنہوں نے بے نظير کے قتل کے احکامات نہ بھی جاری کئے ہوں، تب بھی حالات کی ذمہ داری يقيناً اُنہی کے کاندھوں پر ہے۔

رپورٹ: شہاب احمد صدیقی

ادارت: مقبول ملک