1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’بے بس مہاجرین پھر شام واپسی پر مجبور‘

عاطف توقیر5 اکتوبر 2015

اردن میں مقیم شامی مہاجرین امداد میں کمی اور گھر کی یاد کے ہاتھوں مجبور ہو کر اپنے گھروں کو لوٹ رہے ہیں۔ خانہ جنگی کے شکار ملک شام میں صورت حال بد سے بدترین ہو رہی ہے، مگر ان مہاجرین کے پاس کوئی اور راستہ نہیں ہے۔

https://p.dw.com/p/1GigR
Jordanien Zaatari Flüchtlingslager
تصویر: picture-alliance/AP/R, Adayleh

مختلف خبر رساں اداروں کے مطابق شام لوٹنے والے یہ مہاجرین وہ افراد ہیں، جن کے پاس یورپ لے جانے والے انسانی اسمگلروں کو دینے کے لیے پیسے نہیں، یا وہ اردن میں مہاجر بستیوں کو دی جانے والی امداد میں بڑی کٹوتیوں کی وجہ سے مجبور ہو چکے ہیں، یا انہیں اپنے گھر کی یاد ستائے جا رہی ہے۔

ایک ایسے وقت پر جب یورپ کی جانب ہجرت کرنے والے افراد کی تعداد بڑھ رہی ہے، شام کے ہمسایہ ممالک میں ان مہاجرین کے لیے برداشت کی کمی کے اشارے مل رہے ہیں۔

شمالی اردن میں اقوام متحدہ کے زیرنگرانی چلنے والے مہاجر کیمپ زاتاری کے ایک 47 سالہ رہائشی عدنان کے مطابق، ’’ہمیں امداد کی فراہم روک دی گئی ہے۔ میں نے اپنے خاندان کا نام شام واپس جانے کے لیے لکھوا دیا ہے۔‘‘

شامی حکام کی جانب سے سزا کے خوف سے اس شخص نے اپنا پورا نام بتانے سے احتراز کیا۔ عدنان کا کہنا تھا کہ زاتاری کیمپ سے شامی سرحد کا فاصلہ دس کلومیٹر ہے، جسے طے کرنے کے لیے کیمپ حکام کے پاس نام کا اندراج کروایا جاتا ہے اور اس طرح انہیں بس مہیا کر دی جاتی ہے۔

Syrische Flüchtlinge in einem Flüchtlingslager im Libanon
مہاجرین کے لیے امداد میں خاصی کٹوتی ہوئی ہےتصویر: picture-alliance/AP Photo/Mohammed Zaatari

اقوام متحدہ نے اس کیمپ سے مہاجرین کے انخلا پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اردن میں اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے سربراہ اینڈریو ہارپر کے مطابق، ’’یہ ایک خطرناک فیصلہ ہے، جو لوگ کر رہے ہیں۔ جنگ زدہ شام جانے والوں میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مہاجرین کے تحفظ کے لیے عالمی برادری ناکامی کا شکار ہو رہی ہے۔‘‘

یہ بات اہم ہے کہ خانہ جنگی کے شکار ملک شام سے قریب چار ملین افراد ہجرت کر کے ہمسایہ ممالک ترکی، لبنان اور اردن میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ ان افراد کو پناہ دینے والے ممالک کی جانب سے قانونی طور پر نوکری کی اجازت نہیں، جس کی وجہ سے یہ افراد معمولی اجرت پر غیرقانونی مزدوری کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ تاہم حال ہی میں ورلڈ فوڈ پروگرام کی جانب سے ان مہاجرین کی امداد میں بڑی کمی کے نہایت برے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ اقوام متحدہ کے اس ادارے کی جانب سے امداد کی اپیلوں کے باوجود اسے سرمایے کی کمی کا سامنا ہے۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق ورلڈ فوڈ پروگرام کی جانب سے امدادی سامان کی ترسیل میں کٹوتیوں کی وجہ سے اردن میں قریب نصف ملین مہاجرین شدید متاثر ہوئے ہیں۔

عدنان نے بتایا کہ اس کا آبائی گاؤں شامی صوبے درعا میں واقع ہے، جہاں سن 2011ء میں صدر بشار الاسد کی حکومت کے خلاف مظاہروں کا سب سے پہلے آغاز ہوا تھا، جو بعد میں رفتہ رفتہ پورے ملک میں پھیل گئے اور پھر انہوں نے مسلح بغاوت اور خانہ جنگی کی شکل اختیار کر لی۔

عدنان کا خاندان 12 افراد پر مشتمل ہے اور وہ درعا صوبے سے کچھ ہی مسافت پر واقعے اردن کے شہر رمثا میں رہائش پذیر ہیں اور زاتاری کیمپ میں رجسٹرڈ ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اب تک وہ اس کیمپ سے ملنے والے فوڈ ووچرز پر گزارا کر رہے تھے، جب کہ اپنے اہل خانہ کی رہائش کے لیے ڈھائی سو ڈالر جمع کرنے کے لیے وہ سبزیاں فروخت کیا کرتے تھے۔ عدنان نے بتایا کہ دو ماہ قبل ان کے دو بڑے بیٹے، 14 سالہ بھائی اور بہن یورپ کے لیے نکل پڑے، جن میں سے دو اب یورپ پہنچ چکے ہیں جب کہ دو ابھی ترکی میں ہیں اور انہیں فوڈ ووچرز ملنا بند ہو گئے ہیں۔

’’ہمارے پاس مزید پیسے نہیں کہ ہم بھی یورپ کے لیے نکل پڑیں کیوں کہ اس کے لیے چار سو ڈالر تو صرف نئے شامی پاسپورٹ کے لیے درکار ہوتے ہیں۔ اس کے بعد جہاز کا ٹکٹ خریدنا پڑتا ہے اور اسگلروں کو ادائیگی بھی کرنا ہوتی ہے۔ اتنے سارے پیسے جمع کرنا میرے بس کی بات نہیں۔‘‘

عدنان نے بتایا کہ اس نے اپنے خاندان کی خواتین اور بچوں کے نام شام واپسی کے لیے رجسٹر کروا دیے ہیں۔ اس طرح وہ زمینی راستے سے پہلے درعا جائیں گے اور پھر وہاں سے ترکی پہنچنے کی کوشش کریں گے۔ ’’اس کے علاوہ میرے پاس اور کوئی راستہ نہیں ہے۔‘‘