1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بے گناہوں کی ہلاکت ناقابلِ قبول: میرکل

8 ستمبر 2009

آج جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے وفاقی پارليمان ميں پندرہ منٹ تک جاری رہنے والے ايک حکومتی بيان میں کہا کہ افغانستان ميں ايک بھی بے گناہ کی ہلاکت ناقابل قبول ہے۔ ’’ہميں ہر موت پر افسوس ہے۔‘‘

https://p.dw.com/p/JXtH
تصویر: picture alliance/dpa

شمالی افغانستان ميں لڑائی کے دوران ايک جرمن کمانڈر کی طرف سے فضائی مدد طلب کئے جانے کے بعد بڑی تعداد ميں ہلاکتوں کے سانحے کے تقريباًايک ہفتے بعد آج جرمن پارليمنٹ ميں اس بارے ميں بحث جاری ہے جس کے دوران چانسلر ميرکل نے یہ حکومتی بيان ديا ہے۔

تين اور چار ستمبر کی درميانی شب ميں شمالی افغانستان کے شہر قندوز کے قريب طالبان نے دو پيٹرول سے لدے ٹينکرز پر قبضہ کرليا تھا۔ اس کے بعد جرمن فوجی اڈے کے کمانڈر نے خطرہ محسوس کرتے ہوئے ٹينکرز پر بمباری کے لئے نيٹو سے فضائی مدد طلب کی تھی۔ غير مصدقہ اطلاعات کے مطابق اس فضائی حملے ميں ايک سو سے زائد افراد ہلاک ہوئے جن ميں شہری بھی شامل تھے، جبکہ جرمن وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ ہلاک شدگان کی تعداد چھپن تھی۔ اس واقعے کے بعد جرمنی کے اندر اور ملک سے باہر بھی اس سلسلے ميں شديد بحث جاری ہے۔

Bundeswehr Tanklaster Bombardierung
قندوز میں نیٹو کے فضائی حملے میں درجنوں شہری ہلاکتیں ہوئیںتصویر: dpa

جرمن چانسلر نے تاليوں کی گونج ميں ملک کے اندر اور بيرون ملک جرمن فوجی کمانڈر کے نيٹو سے فضائی مدد طلب کرنے کے فيصلے پر جاری تنقيد کو ردکرديا اورافغانستان ميں جرمن فوج کی کارروائی کا دفاع کرتے ہوئے يہ ياد دلايا کہ يہ علاقہ تمام دنیا میں دہشت گردی کے لئے خطرے کا باعث ہے: ’’افغانستان ميں جرمن فوج کی کارروائی ہمارے ملک کی سلامتی کے لئے ضروری ہے اور اس کی بنياد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداديں ہيں۔‘‘

چانسلر ميرکل کے بيان کے بعد پارليمنٹ ميں قندوز کے واقعے کے حوالے سے عام بحث شروع ہوئی جس کی ايک خاص بات يہ تھی کہ کسی بھی پارٹی کے مقرر نے اس واقعے اور اس پر بحث کو انتخاباتی مہم کے لئے استعمال کرنے کی کوشش نہيں کی اور بحث سنجيدہ انداز ميں کی گئی۔ جرمن وزير خارجہ اشٹائن ماير نے اپنی تقرير ميں کہا: ’’ غير ممالک ميں بھی اس واقعے کی مذمت کی جارہی ہے حالانکہ ابھی پورے حقائق سامنے نہيں آئے ہيں۔اس لئے ميں نے بہت سے يورپی وزرائے خارجہ سے فون پر رابطہ قائم کرکے ان سے کہا ہے کہ وہ بھی ہماری طرح سے تھوڑا انتظار کريں۔‘‘

جرمن پارليمنٹ ميں بحث جاری ہی تھی کہ نيٹو نے پہلی بار يہ اعلان کيا کہ قندوز کے واقعے ميں شہری بھی ہلاک ہوئے ہيں۔ جرمن وزير دفاع يونگ نے کہا کہ قندوز ميں جرمن کمانڈرنے نیٹو سے فضائی کمک يہ واضح اطلاع ملنے کے بعد طلب کی تھی کہ پيٹرول سے لدے ٹينکرز پر قبضہ کرنے والے طالبان اور دوسرے حکومت مخالف گروپ تھے۔

اپوزيشن کی گرين پارٹی کے يرگن ٹريٹين نے وزير دفاع پر سخت تنقيد کرتے ہوئے کہا کہ ان کا اصول يہ ہے کہ حقيقت کو چھپاتے ہوئے ہر بات سے انکار کيا جائے اور اگر کوئی اور راستہ نہ ملے تو پہلے جن باتوں سے انکار کيا گيا تھا ان پر معذرت کرلی جائے۔

اُنہوں نے تنقيد کی کہ جرمنی نےاب ايک غلط حکمت عملی اپنالی ہے جس کے تحت شہری آبادی کی ہلاکت کو گوارہ کيا جارہا ہے۔ بائيں بازو کی پارٹی ڈی لنکے کے سربراہ اوسکر لافونٹين نے ايک بار پھر افغانستان سے جرمن فوج کی واپسی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ وہاں فوج تعينات کرنے سے جرمنی زيادہ محفوظ نہيں بلکہ زيادہ غير محفوظ ہوگيا ہے۔ ايف۔ڈی۔پی کے ويسٹر ويلے نے قندوز کے واقعے کے سلسلے ميں جرمن حکومت کی اطلاعات کی فراہمی کی پاليسی پر تنقيد کی ليکن چانسلر کے اظہار افسوس کے الفاظ کو سراہا۔

رپورٹ: شہاب احمد صديقی

ادارت: کشور مصطفٰی