1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تائیوان میں تحریک آزادی کچل دیں گے، چینی صدر کا انتباہ

عاطف بلوچ، روئٹرز
18 اکتوبر 2017

چینی صدر نے خبردار کیا ہے کہ تائیوان کی چین سے الگ ہونے کی کوششوں کو ناکام بنا دیا جائے گا۔ دوسری طرف تائیوان نے چینی صدر کے اس بیان کو افسوسناک قرار دیا ہے۔ بیجنگ ون چائنہ پالیسی کے تحت تائیوان کو اپنا حصہ قرار دیتا ہے۔

https://p.dw.com/p/2m3s1
China Peking Kommunistischer Parteitag Xi Jinping
تصویر: Reuters/J. Lee

چینی صدر شی جن پنگ نے بدھ اٹھارہ اکتوبر کے روز حکمران کمیونسٹ پارٹی کی اعلیٰ قیادت کے ایک اجلاس سے اپنےخطاب میں واضح کیا کہ چین پراعتماد ہے کہ علیحدگی پسندوں کی طرف سے تائیوان کی آزادی کی کوششوں کو ناکام بنا دیا جائے گا۔ چینی کمیونسٹ پارٹی کی کانگریس سے اپنے افتتاحی خطاب میں انہوں نے مزید کہا کہ اس تناظر میں بیجنگ حکومت کی اہلیت پر کوئی شک نہیں کیا جانا چاہیے۔

اقتصادی مفادات چین اور تائیوان کو قریب لا سکتے ہیں

’آزاد ہانگ کانگ اور تائیوان بطور الگ وطن قابلِ قبول نہیں‘

چین سے تنازعے میں فوجی کارروائی کوئی حل نہیں، تائیوانی صدر

صدر شی جن پنگ کے بقول، ’’ہم کسی فرد، ادارے یا کسی بھی سیاسی پارٹی کو اجازت نہیں دیں گے کہ وہ چین کے کسی بھی علاقے کو چین سے الگ کرنے کی کوشش کرے۔‘‘ انہوں نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ تائیوان کو چین سے الگ کرنے کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا۔

چینی صدر کے اس بیان پر اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے تائیوان کی حکومت نے کہا ہے کہ ملک کے مستقبل کا فیصلہ کرنا ریاست کے تئیس ملین شہریوں کا حق ہے۔ ایک حکومتی بیان میں چینی صدر کے اس بیان کو ’افسوسناک‘ قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ چین اپنی ون چائنہ پالیسی کے لیے اپنے ہی لوگوں کا اعتماد بھی نہیں جیت سکتا۔

Taiwan Tsai Ing-wen
گزشتہ برس تائیوان کے صدارتی انتخابات میں سائی انگ وین کی کامیابی کے بعد سے تائیوان اور چین کے مابین ایک تناؤ کی کیفیت پیدا ہو چکی ہےتصویر: picture alliance/Presidential Office Handout

گزشتہ برس تائیوان کے صدارتی انتخابات میں سائی انگ وین کی کامیابی کے بعد سے تائیوان اور چین کے مابین ایک تناؤ کی کیفیت پیدا ہو چکی ہے۔ سائی انگ وین کی طرف سے ون چائنہ پالیسی کی توثیق نہ کرنے پر بیجنگ نے ان کی حکومت سے سفارتی تعلقات منقطع کر دیے تھے۔ سن انیس سو انچاس میں خانہ جنگی کے نتیجے میں تائیوان نے چین سے علیحدگی اختیار کر لی تھی تاہم اپنی باقاعدہ آزادی کا اعلان نہیں کیا تھا۔

تائیوان کی اس خاتون رہنما نے چین کو اس وقت بھی ناراض کر دیا تھا، جب انہوں نے امریکی صدارتی انتخابات میں کامیابی پر ڈونلڈ ٹرمپ کو مبارک باد کا پیغام ارسال کیا تھا۔ چین تائیوان کو، جس کی حکمرانی پر بیجنگ کو کوئی اختیار نہیں ہے، اپنا ایک باغی صوبہ قرار دیتا ہے اور کہتا ہے کہ تائیوان کو چین کے کنٹرول میں لایا جانا چاہیے، چاہے اس کے لیے کوئی فوجی کارروائی ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔

بدھ کے دن حکمران کمیونسٹ پارٹی کی کانگریس سے خطاب میں شی جن پنگ نے دیگر موضوعات پر بھی گفتگو کی۔ تین گھنٹے طویل اپنے اس خطاب میں انہوں نے کہا کہ کمیونسٹ پارٹی کو ملکی ٹیکنالوجی کی صنعت کی ترقی میں قائدانہ کردار ادا کرنا چاہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس مقصد کی خاطر مختلف ریاستی اداروں کے مابین زیادہ بہتر رابطہ کاری ہونی چاہیے۔

چینی کمیونسٹ پارٹی کا یہ اجلاس ہر پانچ برس بعد منعقد ہوتا ہے، جس میں آئندہ ملکی سربراہ کے چناؤ کے علاوہ قومی حکمت عملی بھی ترتیب دی جاتی ہے۔ سن دو ہزار بارہ میں پارٹی سربراہ بننے والے شی جن پنگ متوقع طور پر دوبارہ اس عہدے کے لیے منتخب کر لیے جائیں گے۔