1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تائیوان میں شرح پیدائش دنیا بھر میں سب سے کم

15 اگست 2011

تائیوان میں مختلف وجوہات کی بنا پر عام خواتین میں شرح پیدائش دنیا بھر میں سب سے کم ہو چکی ہے اور گزشتہ برس وہاں ایک عام خاتون کی طرف سے پوری زندگی میں جنم دیے جانے والے بچوں کی اوسط شرح صرف 0.9 بچے فی خاتون رہی۔

https://p.dw.com/p/12Gor
تیئس ملین کی آبادی والے تائیوان میں بچوں کا تناسب مسلسل کم ہوتا جا رہا ہےتصویر: AP

تائی پے میں حکام نے آج پیر کے روز بتایا کہ عام خواتین میں افزائش نسل کی اس انتہائی کم شرح کی وجوہات بہت متنوع ہیں۔ اس امر کے اسباب اقتصادی نوعیت کے بھی ہیں اور توہم پرستانہ بھی۔ سن 2010 کے دوران اس بہت کم شرح پیدائش پر تائی پے میں پالیسی سازوں کو اس لیے بہت تشویش ہے کہ اگر سالانہ بنیادوں پر اس شرح میں قابل ذکر اضافہ نہ ہوا تو مستقبل قریب میں تائیوان کے لیے اپنی ہمسایہ دیگر برآمدی معیشتوں مثلاﹰ ہانگ کانگ، سنگا پور اور جنوبی کوریا کا مقابلہ کرنا بہت مشکل ہو جائے گا۔

BdT, Kinder bestaunen ein Mammut Model in Taipei (Taiwan)
تائی پے کے ایک اسکول کے ایک مقامی میوزیم کا دورہ کرنے والے بچےتصویر: AP

تائیوان 23 ملین کی آبادی والا ایک جزیرہ ہے، جو خود کو چینی جمہوریہ قرار دیتا ہے لیکن بیجنگ کا دعویٰ ہے کہ تائیوان اس کا ایک باغی صوبہ ہے، جسے ضرورت پڑنے پر جبری طور پر بھی باقی ماندہ چین کے ساتھ ملایا جا سکتا ہے۔

سن 2010 میں تائیوان میں اس سے پہلے کے سالوں کے مقابلے میں اور بھی کم بچے پیدا ہوئے، جس کی ماہرین کے نزدیک جزوی طور پر ایک وجہ یہ بھی رہی کہ عالمی مالیاتی بحران کے باعث وہاں بہت سے جوڑوں کے پاس اتنے اضافی مالی وسائل ہی نہیں تھے کہ وہ بچے پیدا کرنے کا سوچتے اور یہ رقوم ان بچوں کی پرورش پر خرچ کرتے۔

تائی پے میں وزارت داخلہ کے شعبہ تعلقات عامہ کی خاتون سربراہ لیو لی فانگ کا کہنا ہے کہ سن 2010 میں تائیوان میں اس لیے بھی بہت کم بچے پیدا ہوئے کہ چینی کیلنڈر کی رو سے گزشتہ برس بچوں کی پیدائش کے لیے کوئی مبارک سال نہیں تھا۔ لیو لی فانگ کے بقول یہ ہے تو توہم پرستانہ سوچ کا نتیجہ لیکن اس حقیقت نے بھی پچھلے سال شرح پیدائش کو واضح طور پر متاثر کیا۔

Teehaus Wistaria Taipei Taiwan
تائی پے کا ایک روایتی چائے خانہتصویر: DW

کئی ماہرین سماجیات کے مطابق تائیوان میں ان دنوں یہ رجحان بھی بہت زیادہ ہے کہ وہاں اکثر خواتین یا تو سرے سے شادی کرتی ہی نہیں یا پھر ایسا بہت دیر سے کرتی ہیں۔ اس کے بڑے اسباب یہ ہیں کہ ان پر یا تو اپنے پیشہ ورانہ کیریئر میں مزید آگے بڑھنے کا جوش و جذبہ بہت زیادہ ہوتا ہے یا پھر وہ ان روایتی ساسوں سے بچنا چاہتی ہیں، جو عام طور پر شادی کے بعد بھی اپنے بیٹوں کو کنٹرول میں رکھتی ہیں اور جن کے ان کی بہوؤں سے خاندانی زندگی میں مطالبات ہمیشہ ہی بہت زیادہ ہوتے ہیں۔

وزارت داخلہ کی اعلیٰ اہلکار لیو لی فانگ کا کہنا ہے کہ تائیوان میں بچوں کی کم تر شرح پیدائش ایک بہت پیچیدہ معاملہ ہے، جس کا تعلق اس بات سے بھی بہت زیادہ ہے کہ وہا‌ں کی آبادی کا معاشرتی ماحول کیسا ہوتا ہے اور چینی لوگوں کی جذباتی ترجیحات کیا ہیں۔

تائی پے میں سرکاری اہلکاروں کے مطابق اگر تائیوان میں بچوں کی انتہائی کم شرح پیدائش آئندہ بھی دیکھنے میں آتی رہی تو وہ وقت زیادہ دور نہیں کہ حکومت کو یا تو بیرون ملک مقیم شہریوں سے وطن واپسی کی درخواست کرنا پڑے گی یا پھر زیادہ سے زیادہ تعداد میں بزرگ شہریوں کو اس بات پر آمادہ کرنا پڑے گا کہ وہ پینشن پر جانے کی بجائے مسلسل کام کرتے رہیں۔

گزشتہ برس تائیوان میں بچوں کی مجموعی شرح پیدائش صرف 7.21 بچے فی ایک ہزار خواتین رہی تھی اور یہ شرح دنیا کے کسی بھی دوسرے ملک یا خطے کے مقابلے میں سب سے کم بنتی ہے۔

رپورٹ: مقبول ملک

ادارت: امجد علی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں