1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تاجکستان کی سرحد کے قریب افغان ضلع پر طالبان کا قبضه

شادی خان سیف، کابل21 جولائی 2016

افغانستان میں طالبان نے تاجکستان کی سرحد کے قریب قندوز صوبے کے قلعه زال ضلع پر چار روز کی جنگ کے بعد قبضه کر لیا ہے تاہم افغان سکیورٹی حکام کا دعویٰ ہے که محض اسٹریٹیجک اقدام کے تحت تهوڑی دیر کے لیے علاقه خاله کیا گیا۔

https://p.dw.com/p/1JTDm
Karte Afghanistan Provinz Kunduz Englisch

صوبائی کونسل کے رکن امیر الدین ولی کے بقول طالبان نے گزشته چار دنوں سے قلعه زال کا محاصره کر رکها تها اور گزشته شب وه ضلعی انتظامیه کے اہم دفاتر اور اطراف کے علاقے پر کنٹرول پانے میں کامیاب ہوگئے۔ ایسی بهی اطلاعات ہیں که حکومتی فورسز کے متعدد اہلکاروں کے بشمول ضلعی پولیس سربراه سیف الله امیری بهی طالبان کے حملے میں مارے گئے ہیں۔ طالبان کے ترجمان ذبیح الله مجاهد نے ایک پیغام میں دعویٰ کیا ہے که حکومتی فورسز کو بهاری جانی اور مالی نقصان اٹهانا پڑا ہے۔

شمالی افغانستان میں پولیس کی ’سپین غر کور‘ کے کمانڈر شیراز کامه وال نے ان اطلاعات کو غلط قرار دیا ہے۔ میڈیا نمائندوں سے بات چیت میں کامه وال کا کہنا تها که حکومتی فورسز نے محض ’اسٹریٹیجک پس رفت‘ کی ہے اور جوابی کارروائی میں ضلع کا کنٹرول دوباره حاصل کر لیا ہے۔ ضلعی حکومت کے سربراه محبوب الله سعیدی کے بقول کم از کم پچاس حمله آور طالبان افغان سکیورٹی اہلکاروں کے ساتھ جهڑپوں میں مارے گئے۔ سعیدی نے دو سکیورٹی اہلکاروں کی ہلاکت کی تصدیق کی۔

گزشه برس قندوز صوبے کے دارالحکومت قندوز شہر پر قریب تین روز تک کے قبضے کی وجہ سے طالبان نے ملک بهر میں خوف کی لہر دوڑا دی تهی۔ اسے ان کی حکومت کے خاتمے کے بعد کی سب سے بڑی فوجی پیشقدمی قرار دیا گیا تها۔ اگرچه حکومتی فورسز نے 28 ستمبر کو اس شہر کا کنٹرول کهونے کے بعد یکم اکتوبر کو دوباره حاصل کر لیا تها مگر اس واقعے کے بعد سے بالخصوص شمالی افغانستان میں طالبان کے اثر و رسوخ کی دهاک بیٹھ گئی ہے۔

تجزیه کاروں کے بقول افغان اور اتحادی فوج نے طالبان دور کے بعد کافی عرصے تک شمالی افغانستان سے طالبان کو فرار ہونے اور دور رہنے پر مجبور کر دیا تها مگر ایک ڈیڑھ برس سے یه علاقے ایک مرتبه پهر مقامی، ازبک، تاجک، چیچن اور پاکستانی عسکریت پسندوں کی آماجگاه بن چکا ہے۔

تجزیه نگار عاشق الله یعقوب کے بقول قندوز شہر اور اب قلعه زال پر طالبان کا قبضه حکومتی فورسز کو درپیش چیلنجز کے ساتھ ساتھ مقامی آبادی میں حکومت مخالف جذبات کی بهی عکاسی کرتا ہے۔ ان کے مطابق شمالی افغانستان میں بہت سے لوگ حکومت کے حامی طاقتور اور مسلح کمانڈرو کے ظلم و جبر سے نالاں ہیں اور وه ان سے نجات کی راه ڈهونڈ رہے ہیں، ایسے میں طالبان کو موزوں ماحول میسر آ رہا ہے۔

گزشته برس کے سقوط قندوز پر حکومت کے تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ نے سکیورٹی اداروں میں Grey Areas کو ذمه دار ٹهہرا یا تها۔ اس شمالی صوبے کے باشندوں کو یه بهی گله ہے که مرکزی حکومت یہاں کے امن کے لیے خاطر خواه اقدامات نہیں اٹها رہی۔

Afghanistan Leben in Kundus-Stadt
قندوز صوبے کے دارالحکومت قندوز شہر کا ایک منظرتصویر: DW/C. James

اب قندوز صوبه ایک عرصے سے شمالی افغانستان میں طالبان کے ایک مضبوط گڑھ کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ ملک کے شمال اور شمال مشرقی صوبوں کو جانے والے قریب تمام راستے قندوز سے ہوکر گزرتے هیں اور ان دنوں ان سڑکوں پر طالبان کی جانب سے ایسے افراد کو یرغمال بنائے جانے کے متعدد واقعات سامنے آئے ہیں، جن پر کسی نه کسی طرح حکومت سے منسلک هونے یا اس کے ساته ہمدردی رکهنے کا شبه ہو۔ ان دنوں قندوز کے پڑوسی صوبے تخار اور بدخشان سمیت کئی دیگر شمالی صوبے طالبان کے مسلسل حملوں کی لپیٹ میں ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید