تاحال نظر انداز کردہ طبقے بھی فیشن کی رنگین دنیا میں
5 اکتوبر 2016نت نئے فیشن کی تشہیر کرنے والی ماڈلز اپنے لمبے قد اور دُبلے پتلے جسم کی وجہ سے زیادہ تر ایک جیسی دکھائی دیتی ہیں جبکہ فیشن میں تو دعویٰ ہی ممتاز، انوکھے اور سب سے الگ ہونے کا کیا جاتا ہے۔
چھبیس سالہ خواجہ سرا پَیش ڈی کا تعلق تھائی لینڈ سے ہے اور گزشتہ چند برسوں کے دوران اُس کا چہرہ بہت سے جرائد اور فیشن میگزینز کے سرورق کی زینت بن چکا ہے۔ جب اس ماڈل نے 2010ء میں تھائی لینڈ سے نیویارک میں قدم رکھے تو اُسے جلد ہی اندازہ ہو گیا کہ اپنی جنس اور اپنے رنگ و نسل کی بناء پر اُسے فیشن کی دنیا میں دشواریوں کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ کوئی بھی ماڈل ایجنسی اُس کے ساتھ معاہدہ کرنے پر راضی نہ ہوئی۔
تب پَیش ڈی نے خود ہی ہمت کی اور فیش شوز میں کیٹ واک کرتے ہوئے بتدریج فیشن کی دنیا میں اپنے قدم جمانے کا آغاز کیا، یہاں تک کہ 2013ء میں اُس نے ’ٹرانس ماڈل‘ کے نام سے اپنی نوعیت کی پہلی ماڈل ایجنسی قائم کر دی، جس کا کام ہی خواجہ سرا ماڈلز کو متعارف کروانا تھا:’’یہ آئیڈیا بہت زیادہ کامیاب ہوا۔ میں ایسے امکانات سامنے لانا چاہتی تھی تاکہ خواجہ سرا بھی اپنی خوبصورتی دکھا سکیں۔‘‘
2013ء میں ٹورانٹو میں نفیسہ کیپ ٹاؤن والا کی جانب سے قائم کی جانے والی ماڈل ایجنسی لارڈ بھی اپنی نوعیت کی پہلی ایجنسی تھی۔ اس کی خصوصیت صرف اور صرف سیاہ فام ماڈلز تھیں۔ آج کل اس ایجنسی نے تقریباً ساٹھ ماڈلز کے ساتھ معاہدے کر رکھے ہیں اور اُن میں سے ایک بھی سفید فام نہیں ہے۔ فیشن کی دنیا پر آج بھی سفید فام ماڈلز کا غلبہ ہے۔ ’دی فیشن سپاٹ‘ کے اعداد و شمار کے مطابق نیویارک کے گزشتہ فیشن ویک میں ستّر فیصد ماڈلز سفید فام تھے۔
ہیومن رائٹس کیمپین نامی ادارے کی ایک رپورٹ کے مطابق صرف 2015ء ہی میں امریکا میں اکیس خواجہ سراؤں کو قتل کر دیا گیا۔ نسل پرستی کی بنیاد پر سیاہ فاموں کو بھی قتل کرنے کے واقعات میں تشویشناک حد تک اضافہ ہو گیا ہے۔ فرانس میں مسلمان خواتین کے پیراکی کے لباس بُرقینی پر پابندی عائد کی گئی۔ اس طرح کے واقعات پر فیشن کی دنیا میں بھی تشویش ظاہر کی جا رہی ہے۔
فیشن کی دنیا میں اب پَیش ڈی اور نفیس کیپ ٹاؤن والا کے ماڈلز بھی زیادہ سے زیادہ شرکت کرنے لگے ہیں، یہاں تک کہ گزشتہ نیویارک فیش ویک میں ایک مسلمان ڈیزائنر انیسہ حسیبوان نے اپنا حجاب کلیکشن بھی متعارف کروایا۔