1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تارکین وطن نے کرسمس پر بھی چھٹی نہیں کی

شمشیر حیدر26 دسمبر 2015

کرسمس کے موقع پر بھی مہاجرین نے یورپ کی جانب اپنا سفر جاری رکھا۔ یوں انہوں نے کرسمس کے دونوں دنوں کے دوران نہ تو خود چھٹی کی اور نہ ہی یورپی ساحلی محافظوں کو چھٹی پر جانے دیا۔

https://p.dw.com/p/1HU23
Athen Flüchtlinge Fähre Piräus
تصویر: picture-alliance/AP Photo/P.Giannakouris

جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے برلن، ایتھنز اور میڈرڈ سے ملنے والی رپورٹوں کے حوالے سے بتایا ہے کہ کرسمس کی چھٹیوں میں بھی پناہ گزینوں کی آمد جاری رہی۔

مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ سے آنے والے ہزاروں تارکین وطن اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر سمندری راستوں کے ذریعے یورپی یونین کی حدود میں داخل ہورہے ہیں۔

ایتھنز حکام کے مطابق صرف کرسمس کے دن سترہ سو سے زائد تارکین وطن ترک ساحلوں سے کشتیوں کے ذریعے یونانی جزیروں کوس، شیوس اور لیسبوس پہنچے۔ اس طرح پیر کے روز سے لے کر جمعہ پچیس دسمبر تک کُل بارہ ہزار پناہ گزین یونان پہچنے۔

تاہم ان تمام تارکین وطن نے یونان میں پناہ کی درخواست دینے کی بجائے جرمنی اور دیگر شمالی اور مغربی یورپ کے ممالک کی طرف اپنا سفر جاری رکھا۔

دوسری جانب کرسمس کے دن بحیرہ روم کے ذریعے اطالوی ساحلوں تک پہنچنے والے پناہ گزینوں کی تعداد بھی ساڑھے سات سو سے زائد رہی۔ اطالوی ساحلی محافظوں نے ان افراد کو بحیرہ روم کھلے پانیوں سے نکال کر سسلی پہنچایا۔

تیونس اور الجزائر جیسے شمالی افریقی ممالک سے بحیرہ روم کے ذریعے اٹلی تک کا سفر طویل اور خطرناک ہے۔ گزشتہ پانچ دنوں کے دوران اطالوی اور یورپی یونین کے بحری محافظوں نے اکیس سو سے زائد تارکین وطن کو سمندر سے نکالا ہے۔

غیر قانونی سفر کو روکنے کے اس جاری ’آپریشن صوفیہ‘ نامی اس مشن میں جرمنی کی بحری افواج بھی حصہ لے رہی ہیں۔

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) اور بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت (آئی او ایم) کی رپورٹوں کے مطابق رواں برس کے دوران آٹھ لاکھ سے زائد تارکین وطن بحیرہ ایجیئن کے سمندری راستوں سے یونانی جزیروں پر پہنچے۔ ان میں زیادہ تر مہاجرین کا تعلق شام سے ہے۔

اس کے مقابلے میں روں برس کے دوران بحیرہ روم کے ذریعے اٹلی پہنچے والے تارکین وطن کی تعداد ڈیڑھ لاکھ سے زائد رہی۔ گزشتہ برس اس راستے سے ایک لاکھ ستر ہزار سے زائد پناہ گزین یورپ پہنچے تھے۔

IS-Kämpfer verlassen Palästinenserlager Jarmuk in Damaskus
گزشتہ برس شام میں لی گئی اس تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کن حالات میں شامی شہری دوسرے ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔ دولت اسلامیہ کے جنگجوؤں نے حال ہی میں یرموُک کے اس فلسطینی کیمپ کو خالی کیا ہے۔تصویر: picture-alliance/AP Photo/UNRWA

سمندری راستوں پر یورپی یونین کی بڑھتی ہوئی نگرانی اور اس کے جان لیوا ہونے کے باعث تارکین وطن محفوظ زمینی راستوں کی تلاش میں بھی رہتے ہیں۔ اسی طرح کی ایک کوشش آج مراکش کی سرحد سے متصل ہسپانوی شہر سبتہ میں بھی دیکھی گئی۔

سبتہ نامی خودمختار ہسپانوی علاقے اور مراکش کے مابین سرحد کو خاردار تاروں لگا کر بند کیا گیا ہے اور اس کی نگرانی بھی کی جاتی ہے۔ لیکن آج تین سو مہاجرین کے ایک گروہ نے سمندر میں تیرتے ہوئے سبتہ میں داخل ہونے کی کوشش کی۔

ہسپانوی حکام کے مطابق اس کوشش میں ایک سو بیس افراد کو روک دیا گیا جبکہ ایک سو بیاسی مہاجرین کسی نہ کسی طرح سبتہ میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید