1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تارکین وطن کو اٹلی جانے سے نہیں روک سکتے، لیبا کے میئرز

عاطف بلوچ، روئٹرز
11 فروری 2017

لیبیا کے جنوبی صحرائی علاقوں سے لے کر شمالی شہروں تک کے میئروں کا کہنا ہے کہ تارکین وطن کا بحران بہت بڑا ہے، جس کا حل لیبیا کے بس کی بات نہیں۔

https://p.dw.com/p/2XNry
Rettungsaktion von Ärzte ohne Grenzen Mittelmeer
تصویر: DW/K. Zurutuza

 لیبیا کے میئرز کی جانب سے اس بیان کے سامنے آنے کے بعد روم اور طرابلس حکومتوں کے درمیان تارکین وطن کی روک تھام سے متعلق حالیہ معاہدے کے مستقبل پر سوالات کھڑے ہو گئے ہیں۔

اس ڈیل میں طے کیا گیا تھا کہ طرابلس حکومت کو سرمایہ فراہم کیا جائے گا کہ وہ بحیرہء روم عبور کر کے یورپ پہنچنے کی کوشش کرنے والے تارکین وطن کو روکے اور اپنے ہاں ٹھہرائے۔

لیبیا اور اٹلی کے درمیان بحیرہء روم سیاسی پناہ کے متلاشی افراد اور اقتصادی وجوہات پر ہجرت کرنے والے تارکین وطن کے لیے ایک اہم راستے کا روپ دھار چکا ہے۔ گزشتہ برس اس راستے سے ریکارڈ تعداد میں تارکین وطن اٹلی پہنچے جب کہ اس خطرناک راستے میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھنے والے افراد کی تعداد بھی ہزاروں میں تھی۔

اٹلی اور لیبیا کے درمیان طے پانے والے اس حالیہ معاہدے کے تحت لیبیا کے مختلف علاقوں میں ایسے مہاجر مراکز قائم کیے جائیں گے، جہاں تارکین وطن کو رکھا جائے اور انسانوں کے اسمگلروں کی سرگرمیوں کی روک تھام کے لیے اقدامات کیے جائیں گے، جب کہ ان کے لیے سرمایہ یورپی یونین مہیا کرے گی۔

Symbolbild Flüchtlingsboot Küste Libyen
لیبیا سے ہزاروں افراد اٹلی پہنچ رہے ہیںتصویر: Reuters/D. Zammit Lupi

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اس ڈیل کے حوالے سے لیبیا کے مختلف میئروں سے رابطہ کیا گیا، تاہم ان کی رائے اس ڈیل کے حوالے سے منفی تھی۔ لیبیا کے جنوبی شہر سباء کے میئر حامد الخیالی کے مطابق، ’’ہماری ترجیح ہمارے اپنے شہریوں کی مدد ہے، ناکہ غیرقانونی تارکین وطن کے لیے مراکز قائم کرنا۔‘‘

انہوں نے مزید کہا، ’’اگر یورپ چاہتا ہے کہ انہیں (تارکین وطن کو) ٹھہرایا جائے، تو وہ انہیں اپنی سرزمین پر ٹھہرائے، لیبیا میں نہیں کیوں کہ ہمارے اپنے مسائل کافی ہیں اور ہم ان پر قابو پانا ہے۔‘‘

یہ بات اہم ہے کہ لیبیا میں سن 2011ء میں معمر قذافی کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے شورش اور عدم استحکام کی حالت جاری ہے اور وہاں متعدد مسلح گروہ سرگرم ہیں۔ اسی لاقانونیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انسانوں کے اسمگلر گروہ لیبیا میں ایک مربوط نیٹ ورک قائم کر چکے ہیں۔

روئٹرز کے مطابق یہ اسمگلر ہزاروں ڈالر سرمایے کے عوض مہاجرین کو شکستہ کشتیوں پر بٹھا کر بحیرہء روم عبور کرنے کے ایک مشکل اور خطرناک سفر پر روانہ کر دیتے ہیں۔ گزشتہ برس قریب ساڑھے چار ہزار افراد اسی سفر کے دوران بحیرہ روم کی موجوں کا لقمہ بنے۔