1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تبت فسادات اور چینی حکومت کا موقف

20 مارچ 2008

جہاں ایک طرف بودھ مذہب سے تعلق رکھنے والے تبتی لوگوں کے روحانی پیشوا دلائی لامہ نے تبت کے حالیہ بحران کے حل کے تعلق سے چین کے ساتھ مزاکرات کرنے پر رضامندی ظاہر کی وہیں دوسری طرف چینی حکومت نے آج پندرہ منٹ دورانیہ کی ایک خصوصی رپورٹ کو مختلف چینلز پر نشر کروایا جس میں دلائی لامہ کے پیروکاروں کو لاہزا کی سڑکوں پر فسادات میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیتے ہوئے دکھایا گیا۔

https://p.dw.com/p/DYDU
تصویر: AP

چینی حکومت کے زیر کنٹرول CCTV'S‘ یعنی کلوزڈ سرکیٹ ٹیلی ویژنز کے ذریعے ریکارڈ کی گئی اس فوٹیج کو بیک وقت چینی‘ انگریزی‘ فرانسیسی اور ہسپانوی زبانوں کی چینلوں پر دکھایا گیا۔اس کا مقصد بالکل واضح تھا۔اور وہ یہ‘ کہ لاہزا فسادات کے حوالے سے‘ کسی طرح چین کا موقف بیرونی ممالک کے سامنے آسکے۔

گُزشتہ دس روز سے لاہزا میں تبتی مُظاہرین پر چینی سیکورٹی فورسز کی کارروائیوں کی بین الاقوامی سطح پر شدید نکتہ چینی ہوئی‘ اور بعض حلقوں کی طرف سے یہ مطالبہ بھی زور پکڑتا گیا‘ کہ رواں برس اگست میں بیجنگ میں منعقد ہونے والے اولمپیائی کھیلوں کا عالمی برادری کو بائیکاٹ کرنا چاہیے۔

جلا وطن تبتی راہنما‘ دلائی لامہ نے شمالی بھارت میں ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ اگر انہیں امن مزاکرات کے لئے چین بھی جانا پڑے‘ تو وہ اس کے لئے‘ بالکل تیار ہیں۔حالانکہ ساتھ ہی میں انہوں نے کہا کہ شاید اس وقت ایسا کرنا مناسب نہیں ہوگا۔لیکن چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے چینی دارالحکومت بیجنگ میں نامہ نگاروں کو بتایا کہ کسی بھی قسم کے مزاکرات سے قبل‘ دلائی لامہ کو علیحدگی پسندی کے اپنے موقف کو ترک کرنا ہوگا۔

تبت کے سیاسی مستقبل کے حوالے سے اگرچہ دلائی لامہ کا موقف سخت گیر نہیں ہے تاہم چینی حکومت اس وقت امن مزاکرات کے موڑ میں دکھائی نہیں دیتی ہے۔دلائی لامہ کا چاہتے ہیں کہ چینی سا لمیت پر آنچ آئے بغیر تبت کے خطے کو وسیع خودمختاری دی جانی چاہیے۔

تبت کے حالیہ فسادات کا آغاز دس مارچ کو ہوا جب بڑی تعداد میں تبتی مُظاہرین نے چین مخالف احتجاجی مُظاہروں میں حصّہ لیا۔چینی سیکورٹی فورسز نے مُظاہرین کو منتشر کرنے کے لئے آنسو گیس کا استعمال کیا‘ اور جب اس سے بات نہیں بنی‘ تو گولیاں بھی چلائیں گئیں۔چینی حکومت کا کہنا ہے کہ چین مخالف مُظاہروں میں اب تک تیرہ بے گناہ افراد مارے جا چکے ہیں‘ لیکن بھارت میں قائم جلا وطن تبتی حکومت کے مطابق مرنے والوں کی تعداد ایک سو سے بھی زیادہ ہے۔

دریں اثناءچینی حکام نے آج حکومت مخالف فسادات میں ملوث تقریباً چوبیس تبتیوں کو گرفتار کرلیا ہے۔اس کے علاوہ چین نے دو جرمن صحافیوں کو تبت چھوڑنے کا حکم بھی دیا۔