تخت بہائی پاکستان کا تاریخی اور سیاحتی مقام
تخت بہائی کے مقام پر بدھ مت کی تاریخی باقیات پاکستان میں گندھارا تہذیب اور بدھ مت کی تاریخ کی عکاس ہیں۔اس تاریخی مقام کی تصاویر ہمیں ڈی ڈبلیو اردو کے قاری زین خان نے بھیجی ہیں۔
اونچی پہاڑی پر قائم
تخت بہائی کا علاقہ خیبر پختونخواہ میں مردان کے قریب واقع ہے۔ اونچی پہاڑی پر قائم بدھ مت کی باقیات بدھ مت کی تہذیب، تاریخ اور راہب خانوں میں طرزِ رہائش کے بارے میں اہم معلومات فراہم کرتاہے۔
تاریخی راہب خانے کی باقیات
تخت بہائی کی یہ باقیات جس تاریخی راہب خانے کی ہیں، اس کا وجود پہلی صدی ایسویں کے اوائل میں عمل میں آیا تھا۔
عالمی ثقافتی ورثے کا حصہ
پاکستان میں مختلف تہذیبوں اور ادوار کے متعدد مقامات کو یونیسکو نے اپنی عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل کر رکھا ہے۔ انہی میں تخت بہائی کا راہب خانہ بھی شامل ہے۔
منفرد طرز تعمیر
بدھ مت کا یہ راہب خانہ ساتویں صدی عیسوی تک استعمال میں رہا ہے۔ یہ راہب خانہ کئی عمارات پر مشتمل ہے۔ ان عمارات کی تعمیر میں گندھارا ڈیزائن میں پتھر استعمال کیا گیا ہے۔ ماہرین کی رائے میں باقیات کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے مزید اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
بلند مقام کی اہمیت
تخت بہائی کی باقیات ایک اونچی پہاڑی پر ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ بلندی پر قائم ہونے کی وجہ سے یہ راہب خانہ ماضی میں کئی حملوں سے بچ گیا تھا۔
آثار قدیمہ قرار
تخت بہائی میں بدھ مت کی باقیات میں سے پتھر کے کئی مجسموں کو پشاور کے عجائب خانہ منتقل کر دیا گیا ہے جب کہ کچھ مجسمے لاہور کے عجائب خانے میں رکھے گئے ہیں۔ یونیسکو کی ویب سائٹ کے مطابق اس علاقے کے قریب شہروں میں بڑھتی آبادی کے پیش نظر خیبر پختونخواہ کی صوبائی حکومت کی جانب سے 445 ہیکٹر پر محیط اس راہب خانے کی باقیات کو آثار قدیمہ قرار دے دیا گیا تھا۔
راہب خانے کے مختلف مقامات
اس راہب خانے میں تعمیر کی گئی عمارتیں ضروریات ِ زندگی سے آراستہ تھیں۔ آثار قدیمہ کے ماہرین کے مطابق تخت بہائی میں ایک جگہ کئی استوپ یا بدھ اسٹوپا موجود تھے۔ اس کے علاوہ راہبوں کا رہائش خانہ، ان کے جمع ہونے کی جگہ اور کھانا کھانے کی جگہ بنائی گئی تھی۔ ہر سال سینکڑوں سیاح تخت بہائی کا دورہ کرتے ہیں۔ تاریخ کے طلب علموں کے لیے یہ مقام کسی جنت سے کم نہیں ہے۔