1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترقی پذیر ملکوں میں صحت کے مسائل کے لیے اختراعی طریقے

13 ستمبر 2011

ترقی پذیر ممالک میں صحت کے مسائل کو حل کرنے کے لیے اب اختراعی طریقے بروئے کار لائے جا رہے ہیں۔ کچھ ماہرین نے غریب لوگوں کی مدد کے لیے دوائیوں کی بجائے کچھ نئی مصنوعات تخلیق کی ہیں۔

https://p.dw.com/p/12YSC
تصویر: AP

 حال ہی میں لندن میں ہونے والی ایک انجینئرنگ کانفرنس میں بعض ایسی ہی چیزیں پیش کی گئیں جن میں شمسی طاقت سے چلنے والے آلات سماعت سے لے کر موٹر سائیکل ایمبولینسوں جیسی چیزیں شامل تھیں۔ پیر کے روز لانسٹ نامی طبی جریدے میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں اقوام متحدہ نے ایسی کئی اختراعات کا حوالہ دیا ہے جن میں جنوبی افریقہ کی ایچ آئی وی سے متاثرہ خواتین کو اپنے بچوں کو ٹیسٹ کرانے پر مائل کرنے والے ٹیکسٹ پیغامات اور ادویات کو بوتلوں کے خالی کریٹوں میں دور دراز علاقوں میں لے جانے جیسے منفرد واقعات شامل ہیں۔

 مغربی ممالک کی جانب سے ہزاروں کی تعداد میں سرجیکل اور دیگر طبی آلات غریب ممالک کو بھیجے گئے ہیں مگر عالمی ادارہ ء صحت کے مطابق 75 فیصد سامان کو استعمال میں ہی نہیں لایا گیا۔ اس کی وجہ یہ تھی ان میں سے اکثر آلات ناکارہ تھے یا پھر کسی کو ان کے استعمال کا طریقہ ہی معلوم نہیں تھا۔

آکسفورڈ یونیورسٹی کے آرتھوپیڈک سرجن کرس لیوی جنہوں نے پہلے افریقہ میں کام کیا ہے کا کہنا ہے کہ ماضی میں مغرب کی طرف سے جذبہ خیر سگالی کے طور پر دیے گئے عطیات کا کچھ زیادہ بہتر اثر نہیں پڑا۔ ان کا کہنا تھا کہ افریقہ کے بہت سے ہسپتالوں میں گھٹنوں اور کولہوں کے لیے دیے جانے والے مصنوعی اعضاء سائز کے لحاظ سے مختلف تھے اور زیادہ کارآمد ثابت نہیں ہو سکے۔ اس کی مثال تو ایسے ہے جیسے آپ کو اپنی فوکس ویگن کے لیے فالتو ٹائر کی ضرورت ہو اور آپ کو مرسیڈیز کا ٹائر دے دیا جائے۔

 انہوں نے کہا کہ شمسی توانائی سے چلنے والے آلات سماعت جیسی ایجادات سے افریقہ میں لوگوں کی زندگیوں پر کافی حد تک فرق پڑ سکتا ہے۔ ماہرین کے اندازے کے مطابق دنیا بھر میں عارضہ سماعت کا شکار 250 ملین لوگوں میں سے دو تہائی غریب ملکوں میں آباد ہیں۔

Südafrika Mutterschaft Teenager
ملاوی میں زچگی کے دوران خواتین کی شرح اموات بہت زیادہ ہیںتصویر: AP

کیمبرج یونیورسٹی کے مکینیکل انجینئر اینڈریو کار کا کہنا ہے کہ افریقہ کو بطور عطیہ دیے گئے بیشتر آلات سماعت مددگار ثابت نہیں ہوئے کیونکہ انہیں مغرب میں اس عارضے کا شکار افراد کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے تیار کیا گیا تھا۔ کار کے تیار کردہ  آلے کے اندر بیٹری لگی ہوئی ہے اور اس کو ٹوپی اور نیکلس کے ساتھ بھی جوڑا جا سکتا ہے، اس طرح یہ انسانی کان کے بہت نزدیک ہو جاتا ہے۔ کرس کارر نے افریقہ کے بہت سے خیراتی اداروں سے اس کی آزمائش کے بارے میں بات کی ہے اور انہیں امید ہے کہ مثبت نتائج ملنے کی صورت میں اسے وسیع پیمانے پر تیار کیا جا سکتا ہے۔

برطانوی انجینئر مائیک نورمین نے ایک موٹر سائیکل ایمبولینس بنائی ہے۔ نارمن کا کہنا ہے کہ صحت کے حکام نے اس کو استعمال کرنے پر خاص توجہ دی ہے اور وہ اس کے ذریعے حاملہ عورتوں کو ہسپتال لے جانے کا کام کریں گے۔

  کئی سال پہلےجب ملاوی کے ایک ضلع میں موٹر سائکل ایمبولینس کا استعمال شروع کیا گیا تھا تو عورتوں کی زچگی کے دوران اموات میں 60 فیصد تک کمی آئی تھی۔

رپورٹ: سائرہ ذوالفقار

ادارت: امجد علی 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں