1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترکی اور روس تعلقات بہتر بنانے پر رضامند ہو گئے

عاطف بلوچ9 اگست 2016

ترک صدر نے اپنے روسی ہم منصب کے ساتھ ملاقات میں کہا ہے کہ وہ اپنے تعلقات کو معمول پر لاتے ہوئے انہیں پہلے سے زیادہ مضبوط بنا سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ روس کے ساتھ توانائی کے اہم منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کو تیار ہیں۔

https://p.dw.com/p/1Jet9
Russland Recep Tayyip Erdogan und Wladimir Putin in St. Petersburg
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Guneev

خبر رساں ادارے اے پی نے ترک صدر رجب طیب ایردوآن کے حوالے سے بتایا ہے کہ انقرہ اور ماسکو دونوں ہی اپنے تعلقات کو کشیدگی کے بادلوں سے نکال کر بہتر بنانے پر رضا مند ہو گئے ہیں۔

ایردوآن نے آج بروز منگل روسی شہر سینٹ پیٹرز برگ میں روسی صدر پوٹن سے ملاقات میں دونوں ممالک کے مابین پائے جانے والے تناؤ کے خاتمے کے علاوہ دو طرفہ تعلقات کی بہتری اور علاقائی مسائل پر بھی تبادلہ خیال کیا۔

ترکی میں پندرہ جولائی کی ناکام فوجی بغاوت کے بعد ایردوآن پہلی مرتبہ کسی غیر ملکی دورے پر روس پہنچے ہیں جبکہ گزشتہ سال نومبر میں ترکی کی جانب سے شامی سرحد پر محو پرواز ایک روسی جنگی طیارے کو گرائے جانے کے بعد ایردوآن اور پوٹن کے مابین یہ اپنی نوعیت کی پہلی ملاقات تھی۔

شامی سرحد پر ترکی کے ایک ایف سولہ طیارے کی جانب سے ایک روسی جنگی طیارے کو مار گرائے جانے پر روسی صدر پوٹن بہت برہم ہوئے تھے، جس کے بعد ترکی کے خلاف پابندیاں عائد کر دی گئی تھیں اور ایردوآن کے ساتھ اُن کی الفاظ کی ایک ایسی جنگ شروع ہو گئی تھی، جس کے بعد لگتا تھا کہ دونوں کے تعلقات شاید ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خراب ہو چکے ہیں۔

تاہم ایردوآن اور پوٹن کی اس ملاقات کو دونوں ممالک کے تعلقات کی بحالی کے لیے ایک اہم پیشرفت قرار دیا گیا ہے۔ ایردوآن نے پوٹن کو ’پیارے دوست‘ کہتے ہوئے مخاطب کیا اور کہا کہ انقرہ حکومت روس کے ساتھ گیس پائپ لائن منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے تیار ہے۔ ایردوآن نے مزید کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ روس ان کے ملک میں پہلا جوہری پلانٹ تعمیر کرنے میں بھی انقرہ کو مدد فراہم کرے۔

اس موقع پر روسی صدر ولادیمیر پوٹن کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک کے تعلقات اتنے خراب نہیں کہ وہ بحال نہ ہو سکیں۔ پوٹن کا کہنا تھا کہ روسی سیاح اب دوبارہ ترکی کا رخ کرنا شروع کر دیں گے۔

یاد رہے کہ طیارے حادثے کے بعد روس نے نہ صرف ترکی پر پابندیاں عائد کر دی تھیں بلکہ اپنے سیاحوں کو بھی اس ملک میں نہ جانے کی تاکید کی تھی، جس سے ترکی کی سیاحت کی صنعت کو مالی نقصان بھی ہونا شروع ہو گیا تھا۔ ایردوآن سے ملاقات کے دوران پوٹن نے مزید کہا کہ ماسکو حکومت ترکی کی زراعت کی صنعت پر عائد کردہ پابندیوں کو بھی مرحلہ وار اٹھا لے گی۔

پوٹن کا کہنا تھا کہ وہ شام کے معاملے پر ایردوآن سے ایک الگ ملاقات کریں گے، جس میں فوجی اور خفیہ اداروں کے اعلیٰ اہلکار بھی شریک ہوں گے۔ واضح رہے کہ شامی بحران کے حل کے حوالے سے دونوں ممالک کی حکمت عملی میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ پوٹن شامی صدر بشار الاسد کے اہم حلیف ہیں جبکہ ایردوآن اسد کو اقتدار سے الگ دیکھنا چاہتے ہیں۔

ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کے فوری بعد پوٹن نے ایردوآن کو فون کر کے اپنی حمایت کا یقین دلایا تھا۔ آج بروز منگل سینٹ پیٹرز برگ میں پوٹن کے ساتھ ملاقات کے دوران ایردوآن نے اس حوالے سے پوٹن کا خاص شکریہ ادا کیا اور کہا کہ اس فون کال سے وہ، ان کے ساتھیوں اور عوام کو خوشی ہوئی تھی۔

Russland Recep Tayyip Erdogan und Wladimir Putin
ترکی میں پندرہ جولائی کی ناکام فوجی بغاوت کے بعد ایردوآن پہلی مرتبہ کسی غیر ملکی دورے پر روس پہنچے ہیںتصویر: picture-alliance/AA/K. Ozer

ناقدین کا خیال ہے کہ ایردوآن اس مخصوص وقت میں روسی کے ساتھ روابط بڑھاتے ہوئے امریکا اور یورپی یونین ساتھ اپنے تنازعات میں اپنا پلڑا بھاری کرنا چاہتے ہیں۔

انقرہ حکومت واشنگٹن پر زور دے رہی ہے کہ وہ امریکا میں خود ساختہ جلاونی کی زندگی بسر کر رہے ترک مذہبی رہنما فتح اللہ گولن کو ترکی کے حوالے کر دے۔ ایردوآن کا کہنا ہے کہ ترکی میں بغاوت کی کوشش میں ان کا ہاتھ تھا۔ تاہم گولن ان الزامات کو مسترد کرتے ہیں۔

اسی طرح ایردوآن ترکی میں ’باغی عناصر‘ کے خلاف جاری حکومتی کریک ڈاؤن پر یورپی یونین کے تحفظات سے بھی کچھ خاص خوش نہیں ہیں۔ اس تناظر میں ترکی اور یورپی یونین کے مابین مہاجرین سے متعلق ڈیل بھی خطرے میں پڑ چکی ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید