1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’ترکی پناہ گرينوں کے ساتھ بد سلوکی اور زور زبردستی کا مرتکب‘

عاصم سليم16 دسمبر 2015

ايمنسٹی انٹرنيشنل نے الزام عائد کيا ہے کہ ترک حکام پناہ گزينوں کے ساتھ بد سلوکی اور ان کی جبری ملک بدری کے مرتکب ہوئے ہيں۔ ترک حکومت نے رد عمل ظاہر کرتے ہوئے برہمی سے اس الزام کو مسترد کر ديا ہے۔

https://p.dw.com/p/1HOCP
تصویر: Getty Images/AFP/M. Naamani

ترک حکام رواں سال ستمبر سے بين الاقوامی قوانين کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سينکڑوں مہاجرين کو حراست ميں لينے، انہيں تشدد کا نشانہ بنانے اور اپنے ممالک واپس جانے کے ليے دباؤ ڈالنے کے مرتکب ہوئے ہيں۔ ايمنسٹی انٹرنيشنل کی جانب سے یہ انکشاف آج بدھ سولہ دسمبر کے روز کيا گيا ہے۔ تنظيم کے مطابق گرفتار کيے جانے والوں ميں شورش زدہ ممالک شام اور عراق کے شہری بھی شامل ہيں۔

اٹھائيس رکنی يورپی يونين اور ترکی کے مابين طے شدہ ايک حاليہ معاہدے کے تحت يورپی رہنماؤں نے ترکی ميں مقيم قريب 2.2 ملين شامی پناہ گزينوں کی امداد کے ليے 3.2 بلين يورو کی مالی امداد کا اعلان کيا تھا۔ اس کے بدلے انقرہ حکومت نے ترک سرزمين کو استعمال کرتے ہوئے يورپی بر اعظم تک پہنچنے والے پناہ گزينوں ميں کمی لانے اور انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرنے کی حامی بھری تھی۔

اسی تناظر ميں بات کرتے ہوئے ايمنسٹی کے ڈائريکٹر برائے يورپ اور وسطی ايشيا جان ڈيل ہوئيزن نے بتايا کہ ان کے ادارے نے ترک سرزمين پر انتہائی نازک صورتحال سے دوچار افراد کی حراست کے بارے ميں اہم معلومات اکھٹی کی ہيں۔ انہوں نے کہا، ’’پناہ گزينوں پر شام اور عراق جيسے ملکوں کی طرف واپس جانے کے ليے دباؤ ڈالنا نہ صرف ناجائز اور يکطرفہ ہرونے کے علاوہ بين الاقوامی قوانين کی خلاف ورزی بھی ہے۔‘‘

ايمنسٹی انٹرنيشنل کے مطابق ترک حکام ممکنہ طور پر سينکڑوں تارکين وطن کو بسوں ميں سوار کر کے ملک کے مشرقی حصے کی جانب روانہ کر رہے ہيں جہاں قائم حراستی مراکز ميں ان مہاجرين کو تشدد کا سامنا ہے۔ جنگ زدہ ملک شام سے تعلق رکھنے والے ايک چاليس سالہ پناہ گزين نے بتايا کہ اُسے ايک مرکز ميں سات دن تک ہاتھ اور پير باندھ کر مکمل تنہائی ميں رکھا گيا۔ اس کا کہنا تھا، ’’جب آپ کے ہاتھوں اور پيروں کو کوئی زنجيز سے باندھ ديتا ہے، تو آپ خود کو ايک غلام محسوس کرتے ہيں، انسان نہيں۔‘‘

ترکی ميں تقريباً دو اعشاريہ دو ملين شامی مہاجرين پناہ ليے ہوئے ہيں
ترکی ميں تقريباً دو اعشاريہ دو ملين شامی مہاجرين پناہ ليے ہوئے ہيںتصویر: picture alliance/AA/B. Akay

انسانی حقوق کے ليے سرگرم اس گروپ نے خبردار کيا ہے کہ پناہ گزينوں کی تعداد محدود کرنے کے ليے ترکی کے ساتھ نومبر ميں طے پانے والی ڈيل کے تناظر ميں يورپی يونين بھی ’انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزيوں‘ میں ملوث شمار کی جا سکتی ہے۔

اس کے برعکس انقرہ حکام نے ايمنسٹی انٹرنيشنل کے ايسے الزامات کو مسترد کر ديا ہے۔ حکام نے بالخصوص شام سے تعلق رکھنے والے مہاجرين کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ايک بھی ايسے فرد کی ملک بدری کے ليے زور زبردستی نہيں کی گئی۔ ترک حکومت کے ايک اہلکار نے بتايا کہ ملک بدری کے ليے چنے جانے والے تمام تارکين وطن کا انفرادی طور پر جائزہ اقوام متحدہ کا ہائی کميشن برائے مہاجرين UNHCR لے رہا ہے۔