1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترکی کرد شہریوں پر فائرنگ کی تحقیقات کرائے، اقوام متحدہ

عاطف توقیر1 فروری 2016

ایک انتہائی ’لرزہ خیز ویڈیو فوٹیج‘ سامنے آنے کے بعد اقوام متحدہ نے انقرہ حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ کرد اکثریتی علاقے میں مبینہ طور پر عام شہریوں کے ایک گروپ پر فائرنگ کے واقعے کی تحقیقات کرائے۔

https://p.dw.com/p/1Hn24
Türkei Sicherheitskräfte in Cizre
تصویر: picture-alliance/abaca

حال ہی میں ایک ویڈیو سوشل میڈیا کے ذریعے سامنے آئی تھی، جس میں ترکی کے جنوب مشرقی علاقے میں عام کرد شہریوں کے ایک گروپ پر فوج کی جانب سے براہ راست فائرنگ کے مناظر دیکھے گئے تھے۔

پیر کے روز جنیوا میں اقوام محتدہ کے کمشنر برائے انسانی حقوق زید رعد حسین نے کہا کہ ترک حکومت اس واقعے کی مکمل چھان بین کرے۔ واضح رہے کہ یہ واقعہ دس روز قبل چیزرے کے علاقے میں پیش آیا تھا، جہاں مبینہ طور پر عام شہریوں کے ایک گروپ پر فوج کی جانب سے براہ راست فائرنگ کی تھی۔ اس واقعے کی ویڈیو وہاں موجود ایک کیمرہ مین رفیق تاکِن نے بنائی تھی، جس میں شہریوں کو لہولہان دیکھا جا سکتا تھا۔

Türkei Sirnak Zerstörung nach Militäroffensive gegen Kurden
ترک فوج کرد علاقوں میں آپریشن کر رہی ہےتصویر: picture-alliance/AA/abaca

اس ویڈیو فوٹیج میں عام شہریوں کو سفید پرچم ہاتھوں میں بلند کیے، ریڑیوں ذریعے مردوں کو لیے جاتا دیکھا جاتا ہے اور اس کے بعد دوسری جانب سے ایک فوجی گاڑی نظر آتی ہے، جو ان پر فائرنگ شروع کر دیتی ہے۔

زید رعد حسین نے اس فوٹیج کو ’انتہائی لرزہ خیز‘ قرار دیا۔

اس فوٹیج میں ویڈیو بنانے والے تاکِن خود بھی لہولہان ہیں، جب کہ ان کے جسم سے نکلنے والے خون نے ان کے کیمرے کے عدسے پر بھی چھینٹے ڈالے ہیں۔ یہ ویڈیو یوٹیوب پر جاری ہونے کے بعد ہزاروں مرتبہ دیکھی گئی ہے، جب کہ اسے عالمی نشریاتی اداروں نے بھی نشر کیا ہے۔

اقوام متحدہ کے سربراہ برائے انسانی حقوق نے کہا، ’’مجھے اس بات پر تشویش ہے کہ کیمرہ مین، جس نے یہ ویڈیو بنائی اسے ہسپتال سے فارغ ہونے کے بعد گرفتاری کا سامنا ہو گا۔‘‘

انہوں نے مزید کہا، ’ظلم کی فلم بندی کرنا جرمن نہیں ہے، مگر عام شہریوں پر فائرنگ کرنا یقینی طور پر جرم ہے۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ یہ انتہائی ضروری ہے کہ اس معاملے کی باریک، آزادانہ اور غیرجانب دارانہ تفتیش کرائی جائے۔

یہ بات اہم ہے کہ ترکی کے کرد اکثریتی علاقوں میں کردستان ورکرز پارٹی کی سرگرمیوں کی وجہ سے انقرہ حکومت نے ان علاقوں میں کرفیو نافذ کر رکھا ہے اور فوج آپریشن میں مصروف ہے۔ انسانی حقوق کے کارکنوں کے مطابق اس آپریشن میں درجنوں عام شہری مارے جا چکے ہیں۔