1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترکی کو نئے دستور کی ضرورت ہے، ایردوآن

عاطف توقیر10 نومبر 2015

ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے منگل کے روز ملک میں اصلاحات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگلے چار برس میں ان کی جماعت کی حکومت ایک نئے دستور تیار کرے گی۔

https://p.dw.com/p/1H3Na
Türkei - Erdogan
تصویر: Reuters

ترک رہنما مصطفیٰ کمال اتاترک کی یادگاری تقریب کے موقع پر رجب طیب ایردآن نے کہا، ’یکم نومبر کے انتخابات اگلے چار برسوں کے لیے ملک میں اعتماد اور استحکام کا پیش خیمہ ہونے چاہیئں۔ اس وقت کو اصلاحات اور نئے دستور کی تیاری کی ترجیح کے طور پر استعمال کریں۔‘

انہوں نے کہا کہ ان انتخابات میں عوام نے ایسا فیصلہ کیا ہے، جو حکومت کی بابت غیریقینی صورت حال کا خاتمہ کرنے کے ساتھ ساتھ ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا جا سکے۔

دوسری جانب یورپی یونین نے منگل کے روز ترک حکومت پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ ملک کو قانون کی بالادستی، انسانی حقوق اور آزادیء اظہار کے شعبوں میں پیچھے لے جا رہی ہے۔ یورپی یونین کی اس انتہائی حساس رپورٹ کی ترکی میں انتخابات کے انعقاد تک سامنے لانے سے گریز کیا گیا تھا۔ یورپی یونین کی رکنیت کے درخواست گزار ترکی سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ ان شعبوں میں بہتری کے لیے فوری اقدامات اٹھائے۔

Brüssel Flaggen EU Türkei Symbolbild Belgien
یورپی یونین کو ترکی میں انسانی حقوق کی خراب صورت حال پر تحفظات ہیںتصویر: picture-alliance/dpa/Landov

اس رپورٹ میں شامی مہاجرین کو پناہ دینے پر ترکی کی تعریف بھی کی گئی ہے۔ واضح رہے کہ حالیہ انتخابات میں رجب طیب ایردوآن کی جماعت ایک مرتبہ پھر پارلیمانی اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے۔ تاہم رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ رجب طیب ایردوآن کے دور اقتدار میں ترکی میں عدالتی نظام اور میڈیا پابندیوں کا شکار ہوتا جا رہا ہے۔

یورپی کمیشن کی جانب سے جاری کردہ اس رپورٹ میں زور دیا گیا ہے کہ ترک میں بنیادی انسانی حقوق اور قانون کی بالادستی کے معاملات میں مجموعی رجحان منفی ہے۔

رپورٹ کے مطابق 28 رکنی یورپی بلاک میں ترکی کی شمولیت کی راہ میں حکومت کے وہ اقدامات حائل ہیں، جو ’یورپی معیارات‘ کے منافی ہیں۔

اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ یکم نومبر کے انتخابات کے ذریعے اقتدار میں آنے والی نئی حکومت کو ان معاملات پر ترجیحی بنیادوں پر توجہ دینا ہو گی۔

یورپی رپورٹ میں صحافیوں اور لکھاریوں کے خلاف فوج داری مقدمات قائم کرنے، انٹرنیٹ قوانین میں تبدیلی اور میڈیا اداروں پر دباؤ جیسے اقدامات کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔