1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترک اور ایران کے مابین تعلقات میں بہتری کی وجوہات

عاطف توقیر
4 اکتوبر 2017

ترک صدر رجب طیب ایردوآن بدھ کے روز ایران پہنچ گئے ہیں، جہاں وہ اپنے ہم منصب حسن روحانی کے علاوہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای سے ملاقاتیں کر رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/2lCW3
Iran Präsident Hassan Rohani & Tayyip Erdogan, Präsident Türkei
تصویر: Reuters/Kayhan Ozer/Presidential Palace

شام کے تنازعہ میں دونوں ممالک مخالف فریقوں کی حمایت میں مصروف رہے ہیں، تاہم عراقی کرد علاقوں میں حالیہ ریفرنڈم کی مخالفت دونوں ممالک نے کی تھی۔ دونوں ممالک کو خوف لاحق ہے کہ اگر عراق میں کرد اپنی علیحدہ ریاست بنانے میں قائم رہے، تو ان کے زیرقبضہ کرد علاقوں میں بھی علیحدگی پسندی کو ہوا ملے گی۔

ایردوآن کے تہران پہنچنے سے قبل اتوار کو ترک مسلح افواج کے چیف آف اسٹاف جنرل ہولوسی بھی ایران پہنچ چکے ہیں۔

عراق سے آزادی کے لیے تاریخی ریفرنڈم

کُرد: چار ملکوں میں موجود بے ریاست لوگ

’ترکی قطر کے ساتھ کھڑا ہے‘، انقرہ حکومت

دونوں ممالک نے عراق کے کرد خودمختار خطے کے قریب اپنے علاقوں میں فوجی مشقیں بھی کی ہیں۔ ان مشقوں میں بغداد حکومت نے اپنی فورسز کو بھی شریک کیا تھا، جس کا مقصد کرد رہنماؤں پر دباؤ ڈالنا ہے کہ وہ علیحدگی پسندی کا راستہ ترک کر دیں۔

یہ بات اہم ہے کہ ستمبر کی 25 تاریخ کو کرد خطے میں منعقدہ متنازعہ ریفرنڈم میں نوے فیصد سے زائد عوام نے آزادی کے حق میں رائے دی تھی۔ اس ریفرنڈم کے بعد جمعے کو بغداد حکومت نے کرد ہوائی اڈوں کے لیے تمام بین الاقوامی پروازوں پر پابندی عائد کر دی تھی۔

ایرانی وزیردفاع جنرل عامر حاتمی نے منگل کے روز ترک چیف آف اسٹاف  سے ملاقات کے بعد کہا تھا کہ ایران، ترکی اور عراق کے مابین قریبی تعلقات خطے کی سلامتی اور استحکام کے لیے نہایت ضروری ہیں۔

ایران نے بھی عراقی کردستان کے ساتھ ایندھن کی تمام تر تجارت موقوف کر دی ہے، اس کے ساتھ ساتھ کردستان کے ساتھ لگنے والی ایرانی سرحد پر عراقی فورسز کی تعیناتی کی بھی اجازت دے دی ہے۔

ترکی نے بھی دھمکی دی ہے کہ وہ عراقی کردستان سے تیل کی تمام تر برآمدات پر پابندی عائد کر سکتا ہے اور اس کے ساتھ ترک سرحد بھی بند کی جا سکتی ہے۔

ایردوآن نے ہفتے کے روز اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ عراقی کردستان کو اس ’ناقابل قبول ریفرنڈم‘ کی ’قیمت چکانا پڑے گی۔‘‘

یہ بات اہم ہے کہ ترکی کے کرد اکثریتی علاقوں میں سن 1984 سے کردستان ورکرز پارٹی متحرک ہے، جن کے محفوظ ٹھکانے شمالی عراق میں ہیں۔ کردستان ورکرز پارٹی نے ایک علیحدہ ریاست کے لیے مسلح جدوجہد شروع کی تھی۔ اس تنظیم کو ترکی کے علاوہ مغربی دنیا نے بھی دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں ڈال رکھا ہے۔

ترکی میں آئینی ریفرنڈم

ایران کے کرد علاقوں میں بھی دو گروپ کردستان ڈیموکریٹک پارٹی آف ایران اور پارٹی آف فری لائف نے کردستان متحرک ہیں۔

واضح رہے کہ گزشتہ برس ترکی میں ایردوآن کے حکومت کے خلاف ہونے والی ناکام فوجی بغاوت کی شدید مذمت تہران حکومت کی جانب سے بھی کی گئی تھی اور تب سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں خاصی بہتری آئی ہے۔