1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترک شہری طاقت کی جنگ کا شکار ہوئے ہیں، ڈی ڈبلیو کا تبصرہ

ڈانیئل ہائنرش / عدنان اسحاق11 اکتوبر 2015

ترک دارالحکومت انقرہ میں ہونے والے دھماکوں میں تقریباً سو افراد ہلاک ہوئے۔ ڈی ڈبلیوکے تبصرہ نگار ڈانیئل ہائنرش کے بقول یہ دھماکے ایک ایسے نظام پر حملہ ہیں، جو اقتدار کی کشمکش کی وجہ سے پہلے ہی ٹکڑے ٹکڑے ہو چکا ہے۔

https://p.dw.com/p/1GmOK
تصویر: Getty Images/G. Tan

ڈانیئل ہائنرش اپنے تبصرے میں لکھتے ہیں کہ انقرہ بم دھماکوں کی تصاویر اور ویڈیوز سماجی ویب سائٹس پر دستیاب ہیں اور ان میں دکھائی جانے والی تباہی کو دیکھا نہیں جا سکتا ۔ ترکی میں جلد ہی پارلیمانی انتخابات ہونے کو ہیں اور ہائنرش کے مطابق بدقسمتی سے اس ملک میں اکثر ’انتخابی جنگ‘ کو غلط معنی میں سمجھا جاتا ہے۔

ترکی میں ان حملوں کو انتہائی شرمناک قرار دیا جا رہا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ یہ حملہ آوروں، پس پردہ عناصر، دہشت گردوں کے حامیوں سمیت ان سیاستدانوں کے لیے بھی ذلت کا مقام ہے، جو اس واقعے سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے۔ ڈانیئل ہائنرش کے مطابق یہ ترکی کے مکمل سیاسی ماحول کے لیے شرمندگی کی بات ہے۔ ان کے بقول ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے انتخابی مہم میں شریک ہو کر ملکی آئین کی خلاف ورزی کی ہے۔ اس کے علاوہ کرد نواز جماعت کے سربراہ صلاح الدین دمیر تاش پر کمزور الزامات عائد کرتے ہوئے ان کا پیچھا کرنے کی اجازت دینے پر بھی شدید بحث کی جا رہی ہے۔

ڈی ڈبلیو کے تبصرہ نگار کے مطابق ان حالات میں حزب اختلاف کی ملک کی سب سے بڑی جماعت ’سی ایچ پی‘ کا رجب طیب ایردوآن کو سب سے بڑا آمر قرار دینے کے علاوہ کوئی اور کام نہیں۔ وزیر اعظم احمد دوؤد آؤلو کے بارے میں کوئی خبر نہیں اور قوم پرست جماعت ’ ایم ایچ پی‘ ایک عرصے سے صرف یہی راگ آلاپ رہی ہے کہ ’’ ترکی کو غیر ملکی قوتوں سے خطرہ ہے‘‘۔

Demonstration in Istanbul
تصویر: picture-alliance/AP Photo

اس تبصرے میں انہوں نے مزید لکھا ہے کہ کوئی بھی چیز بم حملوں میں تقریباً سو افراد کی ہلاکت سے زیادہ افسوس ناک نہیں ہو سکتی، نہ ہی بدعنوانی اور نہ یہ اختیارات کا ناجائزہ استعمال۔ ترکی کو آج کل مختلف مسائل کا سامنا ہے۔ ان میں اقتصادی سست روی، کرد تنازعے میں شدت اور دو ملین شامی مہاجرین کی آمد سر فہرست ہیں۔ ان مہاجرین کے انضمام اور بہبود کے منصوبے کہیں دکھائی نہیں دے رہے۔

وہ مزید لکھتے ہیں کہ ترک معاشرے گزشتہ کئی برسوں سے تقسیم کا شکار ہے اور اب ان حملوں اور انتخابی مہم سے یہ لوگ ایک دوسرے سے مزید دور چلے جائیں گے۔ اور یہ بھی باعث حیرت نہیں کہ ان حملوں کے فوراً بعد ہی ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرانے کا سلسلہ نئے سرے سے شروع ہو گیا تھا۔

ڈی ڈبلیو کے تبصرہ نگار ڈانیئل ہائنرش لکھتے ہیں کہ ان حملوں کے پیچھے کسی کا بھی ہاتھ ہو، چاہے اسلامک اسٹیٹ، کردستان ورکرز پارٹی، شدت پسند کمیونسٹ، قوم پرست یا کوئی اور، ماہرین کے تبصرے، رپورٹس یا تحقیقات کے حوالے سے قائم کیے جانے والے کمیشن ہلاک ہونے والے کے والدین، بہن بھائیوں اور دیگر رشتہ داروں کے زخموں کو بھر نہیں سکیں گے۔

ڈانیئل ہائنرش کے بقول ترک شہری ایک ایسے منقسم اور بے معنی سیاسی کلچر کا شکار ہوئے ہیں، جس کا تعلق مذہب یا کردستان ورکرز پارٹی سے نہیں بلکہ جو صرف طاقت کے حصول کی جنگ ہے۔