1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترک فوج کا کرد باغیوں کے خلاف آپریشن، سو سے زائد ہلاکتیں

مقبول ملک20 دسمبر 2015

ترک سکیورٹی ذرائع کے مطابق ملکی فوج کے ترکی کے جنوب مشرقی علاقے میں ممنوعہ کردستان ورکرز پارٹی کے مسلح باغیوں کے خلاف جاری وسیع تر آپریشن میں ہلاکتوں کی تعداد مزید اضافے کے بعد اب سو سے زائد ہو گئی ہے۔

https://p.dw.com/p/1HQek
Türkei Einsätze gegen die PKK
اس آپریشن کے لیے دس ہزار ترک فوجی تعینات کیے گئے ہیںتصویر: picture alliance/AA/Str

دیاربکر سے اتوار بیس دسمبر کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ بدھ سولہ دسمبر کو کردستان ورکرز پارٹی PKK کے جنگجوؤں کے خلاف شروع کیا جانے والا ملکی فوج کا یہ آپریشن اپنے پانچویں دن میں داخل ہو گیا ہے اور ابھی تک جاری ہے۔

ایک ترک سکیورٹی اہلکار نے آج اے ایف پی کو بتایا کہ اس عسکری آپریشن میں اب تک ہلاک ہونے والے کرد باغیوں کی تعداد اب 102 ہو گئی ہے۔ کل ہفتہ انیس دسمبر تک یہ تعداد سرکاری طور پر 70 بتائی گئی تھی۔

سکیورٹی ذرائع کے مطابق سرکاری دستوں کی باغیوں کے ساتھ ہونے والی خونریز جھڑپوں میں اب تک دو فوجی اور کم از کم پانچ عام شہری بھی مارے جا چکے ہیں۔

کل ہفتے کے روز اپنے ایک بیان میں ترک فوج نے جن کم از کم 70 باغیوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا تھا، وہ سب کے سب کرد عسکریت پسندوں کی ممنوعہ پارٹی پی کے کے سے تعلق رکھنے والے جنگجو بتائے گئے تھے۔

مقامی میڈیا کے مطابق اس فوجی کارروائی کے لیے دس ہزار سرکاری فوجیوں کو ملک کے جنوب مشرق میں تعینات کیا گیا ہے، جنہیں ٹینکوں کی مدد بھی حاصل ہے۔ اس آپریشن کا مقصد کردستان ورکرز پارٹی کے حامی مسلح نوجوانوں کو وہاں کے شہری علاقوں سے نکالنا ہے۔

ملکی فوج کے ایک بیان کے مطابق اس عسکری مہم میں زیادہ تر صوبے سِرناک کے شہروں جیزرے اور سیلوپی اور دیاربکر کے چند علاقوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ دیاربکر اس خطے کا سب سے زیادہ آبادی والا شہر ہے۔

Türkei Kurden PKK Diyarbakir
دیاربکر میں پی کے کے کے حامی کرد نوجوانوں کا ایک پرتشدد مظاہرہتصویر: picture-alliance/dpa

قبل ازیں ترک فوج نے جمعے کے روز اپنے ایک بیان میں یہ بھی کہا تھا کہ اس نے ترکی کے ساتھ سرحد کے پار شمالی عراق میں بھی مسلح کارروائیاں کی تھیں، جہاں کردوں کی اس کالعدم تنظیم کے جنگجوؤں نے اپنے اڈے قائم کر رکھے تھے۔

اس دوران عراقی سرزمین پر کرد باغیوں کی پناہ گاہوں کو فضائی حملوں کا نشانہ بھی بنایا گیا تھا اور عسکریت پسندوں کے کئی ٹھکانے اور ہتھیاروں کی ذخیرہ گاہیں‘ بھی تباہ کر دی گئی تھیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں