1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترک فوج کی اکثریت بغاوت میں شریک نہیں تھی، ترک آرمی

عابد حسین19 جولائی 2016

ترکی کی فوج نے واضح کیا ہے کہ اُس کے ملازمین کی اکثریت بغاوت میں شریک نہیں تھی۔ گزشتہ جمعہ کی رات ہونے والی ناکام بغاوت کے بعد ترکی میں ایردوآن حکومت تطہیر کا عمل جاری رکھے ہوئے ہے۔

https://p.dw.com/p/1JRYI
ایڈمرل ایٹیلا کو گرفتار کر کے لے جایا جا رہا ہےتصویر: picture-alliance/abaca

ترکی کی فوج نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ فوج کی اکثریت ناکام بغاوت میں شریک نہیں تھی اور جو بھی شریک تھے، انہیں کڑی سزا کا سامنا کرنا پڑے گا۔ فوجی کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا کہ فوج کی اکثریت اپنے وطن، عوام اور جھنڈے سے محبت کرتی ہے اور وہ بغاوت میں ملوث افراد کے ساتھ کوئی سروکار نہیں رکھتی۔ اسی بیان میں کہا گیا کہ وہ تمام افراد، جو اِس بغاوت میں شریک تھے، اُن کو بےتوقیر کرنے کے ساتھ ساتھ سخت سزائیں بھی سنائی جائیں گی۔ مقامی تجزیہ کاروں کے مطابق بے توقیری سے مراد افسران کی تنزلی اور قید کی سزائیں ہیں۔

ترک فوج نے یہ بھی کہا کہ وہ قانون کی حکمرانی، جمہوریت اور اعلیٰ اقدار پر یقین رکھنے کے ساتھ ساتھ تمام مروجہ اصولوں اور ضوابط پر کاربند رہنے میں فخر محسوس کرتی ہے۔ اِس بیان میں بغاوت کا ذمہ دار ’فتح اللہ دہشت گرد تنظیم‘ کو قرار دیا گیا ہے۔

اس کالعدم تنظیم کا سربراہ امریکا میں مقیم مذہبی مبلغ فتح اللہ گولن ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ گولن اور موجودہ صدر رجب طیب ایردوآن ایک دور میں قریبی ساتھی تھے اور آج ایک دوسرے کے سخت ترین حریف ہیں۔ آرمی نے اپنے بیان میں کہا کہ فوج کے سربراہ ہولوسی اکار نے گن پوائنٹ پر بھی بغاوت کا ساتھ دینے سے انکار کیا تھا۔

Istanbul Türkei Erdogan in der Menschenmenge
ترک صدر رجب طیب ایردوآن اپنے مداحوں کے ہجوم میںتصویر: picture-alliance/dpa/V.Gurgah

تازہ ترین اطلاعات کے مطابق وزارتِ تعلیم کے پندرہ ہزار سے زائد ملازمین کو فوری طور پر معطل کر دیا گیا ہے۔ دوسری جانب ترکی کے قومی خفیہ ادارے نے کم از کم ایک سو ایسے افراد کو معطل کر دیا ہے جو اُس کے لیے کام کرتے تھے۔ ان کی معطلی کی وجہ امکاناً ان کی جانب سے فرائض میں غفلت برتنے کی وجہ سے کی گئی ہے۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ معطل کیے گئے افراد سرگرم ایجنٹ نہیں تھے۔ بعض تجزیہ کاروں کے مطابق یہ افراد مذہبی حلقوں کے رابطوں میں بھی تھے۔ ناکام بغاوت کے بعد تطہیر کے عمل میں سرکاری محکموں میں سے ہزاروں افراد کو فارغ کر دیا گیا ہے۔ ایردوآن حکومت کا موقف ہے کہ فتح اللہ گولن کے حامی افراد فوج اور سرکاری محکموں میں سرایت کر چکے ہیں اور یہی عناصر بغاوت کے ذمہ دار تھے۔

دریں اثنا ترک حکومت نے اِس کا انکار کیا ہے کہ فوجی بغاوت کے بارے میں معلومات اُس وقت دستیاب ہوئی تھیں جب خاصا وقت گزر چکا تھا۔ اس طرح حکومتی نائب وزیراعظم نعمان کُرتلموس نے فوج کے بیان سے ایک مختلف بیان دیا ہے۔ فوج نے بتایا تھا کہ اُسے چار بجے شام معلوم ہو گیا تھا کہ بغاوت کا عمل شروع ہو گیا ہے۔

نائب وزیراعظم کُرتلموس نے یہ بھی بتایا کہ اِس وقت نو ہزار تین سو بتیس افراد کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا عمل شروع ہے۔ نائب وزیراعظم نے ایسی رپورٹوں کی تردید کی ہے کہ ترک بحریہ کا کوئی جنگی بحری جہاز بغاوت کی ناکامی کے بعد سے لاپتہ ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں