1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترک کی مسلح افواج میں تیس ہزار نئی بھرتیاں ہوں گی

عاطف بلوچ، روئٹرز
16 نومبر 2016

ترک وزارت دفاع کے جانب سے بتایا گیا ہے کہ ترک مسلح افواج میں اگلے چار برسوں کے دوران تیس ہزار نئی بھرتیاں کی جائیں گی۔ ناکام فوجی بغاوت کے بعد ترک افواج سے بڑی تعداد میں فوجیوں کو برطرف کیا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/2Smgk
Türkische Panzer in Syrien
تصویر: Reuters/U. Bektas

رواں برس جولائی میں ہونے والی ناکام فوجی بغاوت کے بعد ترکی میں مسلح افواج سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افسروں اور فوجیوں کو ملازمتوں سے برطرف کیا گیا ہے، جس کی وجہ سے ملکی فوج تعداد کی کمی شکار ہے۔ بدھ 16 نومبر کو ترک وزرات دفاع کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ اگے چار برسوں کے دوران ترک حکومت ملکی مسلح افواج میں تیس ہزار نئی بھرتیاں کرے گی۔

یہ بات اہم ہے کہ جولائی کے وسط میں ہونے والی ناکام فوجی بغاوت کے بعد اب تک ایک لاکھ دس ہزار سے زائد سرکاری ملازمین کو برطرف کیا گیا ہے جن کا تعلق فوج، عدلیہ اور دیگر سرکاری محکموں سے تھا۔  ملازمتوں سے برطرف کیے گئے ان افراد میں سے قریب بیس ہزار کا تعلق ملکی مسلح افواج سے ہے، جن میں سے سولہ ہزار زیر تربیت فوجی تھے۔

Türkei Dscharabulus- Türkische Panzer an der türkisch syrischen Grenze
ترک فوج افرادی قوت کی کمی کا شکار ہےتصویر: Getty Images/AFP/B. Kilic

انسانی حقوق کی تنظیموں اور ترکی کے مغربی اتحادی ممالک کی جانب سے اس حکومتی کریک ڈاؤن پر شدید تحفظات ظاہر کیے جا رہے ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ صدر رجب طیب ایردوآن آمرانہ طرز حکومت کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور ناکام فوجی بغاوت کو نکتہ بنا کر اپنے سیاسی حریفوں کے خلاف کارروائیاں کر رہے ہیں۔

ترک وزارت دفاع سے وابستہ ذرائع کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ اگلے چار برس کے دوران ملکی بری اور بحری فوج میں تیس ہزار ایک سو انسٹھ نئی بھرتیاں کی جائیں گی۔

ترک فوج کے ایک ترجمان نے بھی ان خبروں کی تصدیق کی ہے، تاہم اس حوالے سے درست تعداد نہیں بتائی گئی ہے۔ فوجی بیان کے مطابق اس وقت فوجیوں کی مجموعی تعداد تین لاکھ ساٹھ ہزار کے قریب ہے۔

انقرہ حکومت ناکام فوجی بغاوت کا الزام جلاوطن مذہبی مبلغ فتح اللہ گولن پر عائد کرتی ہے، جب کہ گولن ان الزامات کو مسترد کرتے ہیں۔ ترک حکومت کا کہنا ہے کہ جولائی کی 15 تاریخ کو ہونے والی بغاوت میں ان فوجی افسروں نے حصہ لیا جو گولن تحریک کا حصہ تھے۔

امریکا میں جلاوطنی کی زندگی گزارنے والے فتح اللہ گولن نے فوجی بغاوت کی مذمت کی ہے اور اس میں ملوث ہونے کے تمام تر الزامات کو رد کیا ہے۔